برطانوی وزیر برائے انسداد انتہا پسندی، لارڈ طارق احمد نے کہا ہے کہ داعش کی پُرتشدد کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے، موسم خزاں سے پہلے پہلے نئی مؤثر قانون سازی اور حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے، لارڈ طارق نے ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام، ’راؤنڈ ٹیبل‘ میں بدھ کے روز بتایا کہ اس موضوع پر پارلیمان میں نئے سرے سے بحث ہوگی، جس کے بعد ایک مربوط حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
لارڈ طارق نے انکشاف کیا کہ دولت اسلامیہ کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے، تقریباً 700 برطانوی نوجوان عراق اور شام جا چکے ہیں۔
اُنھوں نےاس بات کی نشاندہی کی کہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی گھاؤنی سازش پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، داعش انٹرنیٹ پر زوردار پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ بقول اُن کے، سوال یہ ہے آیا اِن حربوں کا مؤثر طور پر مقابلہ کس طرح کیا جائے۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اِن پُر تشدد ہتھکنڈوں کا توڑ حکومت اکیلے طور پر نہیں کر سکے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس ضمن میں، مسلمان مذہبی برادریاں، علما اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کثیر جہتی اقدامات کیے جائیں، ان عناصر کو شناخت کیا جائے اور اُن سے نمٹا جائے۔
بقول اُن کے، یہ عناصر برطانیہ اور امریکہ میں آزادی اظہار و مذہب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے غلط نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔
لارڈ طارق نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اس معاملے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ اس مسئلے کا کس طرح مؤثر انسداد ممکن ہے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے، آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5