پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ الحمد اللہ ہمیں کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا، ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے، ریاست کے ستون کی بنیاد عدلیہ ہے، ہم پریشان ہیں اور نہ ہی قوم پریشان ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس بدھ کو انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت کے دوران دیے جو ان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ سن رہا ہے۔
بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے۔ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کاقانون ہوگا۔ ہم نہ تو جلسہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے جسٹس اعجاز الاحسن نے برطانیہ کی عدالت کا ایک فیصلہ نکال کر دکھایا ہے جس کے مطابق اگر عدالتی فیصلے پر بلاجواز تنقید ہو تو ججز جواب دے سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کا جواب دینا پڑتا ہے۔ کسی آئینی ادارے کو دھمکانا یا تنقید کرنا آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے۔
دورانِ سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا۔ آئین ایک عمرانی معاہدہ اور بہت مقدس ہے جس نے عدلیہ اور فوج کو تحفظ دیا ہے۔ آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس عدلیہ پر حملہ کس نے کیا۔ عدالت اتنی رحم دلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پاناما نظرِ ثانی کیس کا فیصلہ اخبار میں مکمل نہیں چھپا۔ پورا فیصلہ چھپ جاتا تو یہ نہ کہتے پھرتے کہ مجھے کیوں نکالا۔ سسلین مافیا اور گارڈ فادر کی عدالتی آبزرویشن درست تھی۔ عدالت نے انھیں گارڈ فادر ایسے ہی نہیں کہا۔
لطیف کھوسہ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ آج کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججوں کو باہر نکال دیں۔ یہ لوگ اپنے خلاف خبر نہیں چھپنے دیتے۔ عدالت کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کی گئیں۔ نوازشریف نااہل ہونے کے بعد سپر وزیرِ اعظم بن گئے ہیں۔ بطور پارٹی صدر، نواز شریف وزیرِ اعظم کو بھی نکال سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راجہ ظفر الحق صاحب! آپ عدالت میں آتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ نہیں آتے۔ انہیں تو لے کر آئیں کہ ذرا دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ لطیف کھوسہ فیصلے کو برا کہتے ہیں لیکن احترام کرتے ہیں۔ ججز کو اختیار آئین اور عدلیہ نے دیے ہیں۔ ہمیں عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا ہے۔ کون صحیح اور کون غلط ہے، اس کا فیصلہ لوگوں کو کرنا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل پر آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں۔ توہین عدالت کیس میں مجرم کی سزا چھ ماہ قید ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی نکال نہیں سکتا۔ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے۔ ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے۔ ناانصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کُرتے کے سوال پر آگے سے سوال نہیں اٹھایا۔ موجودہ وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ انھیں کسی نے وزیر اعظم بنایا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو اسکینڈلائز کیا جارہا ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت نے واضح طور پر قرار دیا کہ نواز شریف نے مکمل سچ نہیں بتایا۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نواز شریف نے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ انھیں نواز شریف نے وزیرِ اعظم بنایا ہے اور اب بھی وہی ان کے وزیرِ اعظم ہیں۔
لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء آئین سے متصادم ہے اور اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے بھی اس قانون پر ہاتھ کھڑا کیا ہوگا؟ آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ریاست پر ایمان دار شخص حکمرانی کرے۔ اگر ادارے کا سربراہ ایمان دار نہ ہو تو پورے ادارے پر اثر پڑتا ہے۔ کیا پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قراردے سکتے ہیں؟
بعد ازاں عدالت نے الیکشن ایکٹ 2017ء کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی۔
کئی سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جس کے تحت عدالت سے نااہل قرار پانے والے شخص کو پارٹی کا سربراہ رہنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اس قانون کی منظوری کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بدستور سربراہ رہنے کی راہ ہموار ہوگئی تھی جنہیں عدالتِ عظمیٰ نے اپنے اثاثے چھپانے کے الزام میں گزشتہ سال وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔