سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا ہے کہ آئندہ کراچی میں کرنٹ لگنے سے اگر کوئی ہلاکت ہو تو بجلی فراہم کرنے والے نجی ادارے کے-الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو افسر، متعلقہ آپریشن مینیجر اور دیگر افسران کو بھی کیس میں نامزد کیا جائے اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں بھی شامل کیے جائیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شہر میں تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزی، شہر میں قبضوں اور دیگر مسائل سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے کراچی میں بجلی کے مسائل پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کے-الیکٹرک شہر میں بجلی کے مسائل حل کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
انہوں نے نیشل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کے-الیکٹرک کا تفصیلی آڈٹ کرایا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ ادارے نے کتنی سرمایہ کاری کی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جتنی سرمایہ کاری کے-الیکٹرک نے کی ہے اس سے زیادہ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جب بجلی بند ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے گھروں میں کیا حال ہوتا ہے؟ عوام کو پیش آنے والی تکالیف کا احساس ہے آپ کو؟
چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ چند لوگوں کی بجلی چوری کی سزا پورے علاقے کو کیسے دی جا سکتی ہے؟
تاہم عدالت میں موجود کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سال کے دوران ان کے ادارے نے کراچی میں بجلی کی ترسیل کے نظام پر ڈھائی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ شہر میں لائن لاسز 42 فی صد سے کم کرکے 26 فی صد تک پہنچا دیے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدالت نے آئندہ سماعت پر کے-الیکٹرک حکام سے بجلی کی کل پیداوار، بجلی کی ترسیل اور دیگر تفصیلات طلب کی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کرنٹ لگنے سے شہریوں کی ہلاکت پر کمپنی کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر حکم امتناع حاصل کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے ایسے تمام کیسز کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
'بل بورڈز ہٹانے کا کام مکمل کیا جائے'
دوسری جانب کمشنر کراچی افتخار شہلوانی نے شہر میں بل بورڈز اتارنے سے متعلق نئی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ پر عدالت کا کہنا تھا کہ شہر میں مختلف عمارتوں پر لگے بل بورڈز فوری طور پر اتارے جانے سے متعلق کام جلد مکمل کیا جائے۔
رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ شہر میں 300 سے زائد مقامات سے اشتہاری بورڈز ہٹائے گئے ہیں۔
عدالت نے اشتہاری بورڈز لگانے کی اجازت دینے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اگست 2016 سے شہر میں بل بورڈز نصب کرنے پر پابندی اور پہلے سے موجود بل بورڈز ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ البتہ اب بھی شہر کے مختلف علاقوں بشمول کنٹونمنٹ بورڈز میں بل بورڈز لگے ہوئے ہیں۔
کراچی کے مسائل کا کیس 10 سال سے زیرِ سماعت
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پارکس پر قائم تجاوزات، عمارتوں کی غیر قانونی تعمیرات، بلڈنگ لاز کی خلاف ورزیوں، سرکلر ریلوے اور رفاعی پلاٹس پر قبضوں اور دیگر شہری امور سے متعلق یہ کیس 10 سال سے زیرِ سماعت ہے۔
انگریزی روزنامے 'دی نیوز' سے وابستہ صحافی جمال خورشید کا، جو اس کیس کو کئی سال سے کور کرتے آئے ہیں، کہنا ہے کہ اس کیس سے جہاں حکومتی اداروں، وفاق اور صوبائی حکومتوں اور شہری انتظامیہ کی کراچی میں تعمیرات سے متعلق لاپرواہی اور قوانین پر عمل درآمد کرانے میں ناکامی عیاں ہوتی ہے۔ وہیں کئی اہم پارکس اور دیگر کھلے مقامات کو واگزار کرانے میں عدالتی احکامات نے کلیدی کردار ادا کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ مفادِ عامہ کے باعث یہ کیس پھیل چکا ہے جس میں 100 سے زائد متفرق درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔
اس کیس کی شروعات کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست سے ہوئی تھی جو انہوں پارکوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے دفاتر بنا کر قبضہ کرنے کے خلاف دائر کی تھی۔ اس درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے شہر کے تمام پارکس سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد ایک خاتون شہری نے اس کیس میں متفرق درخواست دائر کر کے اپنے گھر پر قبضہ ختم کرانے سے متعلق عدالت سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ شہر میں مختلف مقامات، جن میں رفاعی پلاٹس بھی شامل ہیں، انہیں تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پر عدالت نے مزید تفصیلات طلب کیں اور یوں یہ کیس مزید پھیل گیا۔
اسی طرح اس کیس میں کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قبضے، اس کی بحالی اور کھلے مقامات پر غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس بھی شامل ہوئے۔
یاد رہے کہ اسی کیس کے تحت شہر میں تجاوزات کے خلاف بھر پور مہم شروع کی گئی تھی اور صدر کے علاقے میں واقع تاریخی ایمپریس مارکیٹ کے اردگرد دہائیوں سے قائم تمام تجاوزات کو ہٹا کر اسے اس کی اصل شکل میں بحال کیا گیا تھا۔ اسی کیس کی وجہ سے کئی اہم پارکس سے تجاوزات کا خاتمہ ہوا جس میں کراچی کا تاریخی چڑیا گھر بھی شامل ہے۔
دوسری جانب سول سوسائٹی کی سرگرم رکن اور کیس میں متفرق درخواست دائر کرنے والی تنظیم 'شہری' کی جنرل سیکریٹری امبر علی بائی بھی اس خیال سے متفق نظر آتی ہیں کہ اگر عدالتی مداخلت نہ ہوتی تو کراچی کے ہل پارک، کڈنی ہل پارک، گٹر باغیچہ، باغِ ابن قاسم اور دیگر بڑے پارکس پر قائم تجاوزات اور رفاعی پلاٹس پر غیر قانونی تعمیرات کے آگے پل باندھنا ممکن نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملات اگرچہ انتظامی نوعیت کے ہیں لیکن انتظامی نا اہلی، عدم تعاون اور سب سے بڑھ کر سرکاری افسران اور حکومتی اہلکاروں کی شہری مسائل سے عدم توجہ کی روش سے مسائل کا بوجھ عدالتوں پر آتا ہے۔
امبر علی بائی کے بقول سپریم کورٹ جہاں کئی اہم آئینی اور قانونی مسائل سے لدے کیسز زیر سماعت ہیں، اسے پارکوں پر قبضے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، غیر قانونی تعمیرات، رفاعی پلاٹس کا غلط استعمال اور دیگر معاملات پر مفادِ عامہ کے تحت مداخلت کرنی پڑتی ہے۔
ان کے خیال میں کراچی میں کھلے مقامات کو قبضوں سے بچانے، قدرتی حسن بحال رکھنے، ماحولیاتی مسائل سے نکلنے اور قوانین پر عمل درآمد کے لیے جدوجہد کرنا ابھی باقی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے انتہائی سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
حکومت کے مطابق کراچی میں نالوں کی صفائی اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے عالمی بینک کی مدد سے 'کلک' اور 'سوئپ' جیسے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے۔
صوبائی حکومت کے مطابق شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے بھی وفاقی حکومت کے تعاون سے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کا مربوط نظام بنانے کا کام جاری ہے۔ تاہم اس میں بجٹ اور دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب شہری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں 2007 میں ماسٹر پلان بنایا گیا تھا جس کی مدت 2020 میں ختم ہو رہی ہے۔ اس پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ شہر میں بے ہنگم اور بغیر کسی ماسٹر پلان کے تعمیرات جاری ہیں جنہیں کوئی دیکھنے والا نہیں۔