سخت گرمی کا موسم آتے ہی کراچی کے باسی ایک بار پھر کئی کئی گھنٹوں دورانیے پر محیط لوڈ شیڈنگ جھیلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی 12، 12 گھنٹے بھی معطل رہی جس کے باعث شہر میں پانی کی ترسیل کا نظام بھی متاثر ہوا۔
یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شہر میں کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں ماند ہیں۔ بڑے بازار اور مارکیٹس لاک ڈاؤن کی وجہ سے جلد بند ہو رہے ہیں جب کہ صنعتیں بھی استعداد سے کئی گنا کم پر کم کر رہی ہیں یا بند ہیں۔
بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے شہر میں کئی مقامات پر شہریوں نے احتجاج کیا۔ جس سے نہ صرف سڑکیں بند کی گئیں بلکہ امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔
لیکن یہ سب نہ پہلی دفعہ ہوا ہے اور شہریوں کا خیال ہے کہ نہ یہ ہی آخری دفعہ ہو رہا ہے کہ جب بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ستائے شہری سڑکوں پر نکلے ہوں۔
شہر میں بجلی فراہم کرنے والا واحد ادارہ کے-الیکٹرک ہے۔ جو کہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس ک ذمہ داری شہر کی ضرورت کے لیے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ اس کی تقسیم اور ترسیل بھی ہے۔
کے-الیکٹرک کتنی بجلی پیدا کر رہی ہے؟
کراچی الیکٹرک کی اپنی رپورٹ کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے لیے ادارے کے زیر انتظام 5 پلانٹس ہیں۔ جن سے 2267 میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جب کہ 1400 میگا واٹ بجلی بیرونی ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔
بیرونی ذرائع سے حال ہونے والی بجلی میں 650 میگا واٹ بجلی واپڈا جب کہ 750 میگا واٹ بجلی مختلف آئی پی پیز سے حاصل کی جاتی ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر عام حالات میں 3667 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے ذرائع کے-الیکٹرک کے پاس موجود ہیں۔
بجلی پیدا کیے جانے کے بعد اس کی ٹرانسمیشن کے لیے 69 گرڈ اسٹیشنز اور 1287 کلو میٹر پر محیط ایکسٹرا ہائی ٹینشن لائنز کا نیٹ ورک موجود ہے۔ جس کے بعد 1831فیڈرز اور 28 ہزار سے زائد پی ایم ٹیز (پول ماونٹڈ ٹرانسفارمرز) کے ذریعے بجلی کو صارف تک پہنچایا جاتا ہے۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس کے صارفین میں 53 فی صد رہائشی، 31 فی صد صنعتی اور 16 فی صد کمرشل صارفین ہیں۔
کراچی کو کتنی بجلی کی ضرورت ہے؟
کراچی ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں 20 فی صد، ٹیکس ریونیو میں تقریبا 45 فی صد حصہ ادا کرتا ہے جب کہ بڑے پیمانے کی صنعتوں سے وابستہ 60 فی صد ملازمین اسی شہر میں کام کر رہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کے مرکز ہونے کے ناطے ظاہر ہے کہ یہاں بجلی کی کھپت بھی زیادہ ہے۔ جہاں ہر گزرتے سال کے ساتھ بجلی کی طلب میں اضافہ وہ رہا ہے۔ 2014 میں سب سے زیادہ بجلی کی ایک ہی وقت میں طلب (پیک ٹائم ڈیمانڈ) 2929 میگاواٹ تھی۔ جو 2019 میں 3530 میگاواٹ تک جب کہ آج کل یعنی جون 2020 کے پیک ٹائم میں بھی 3500 میگاواٹ ہی کے لگ بھگ ہے۔
اگر بجلی کی فراہمی طلب سے زیادہ ہے تو مسئلہ کہاں ہے؟
مبصرین کے مطابق یہ مسئلہ سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کے-الیکٹرک سرکاری نہیں بلکہ غیر سرکاری کمپنی ہے۔ جو بجلی بنانے اور اسے صارفین تک پہنچانے کا کام ہر دوسری نجی کمپنی کی طرح بہتر منافع کے حصول کے لیے کرتی ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا قیام 1913 میں عمل میں آیا تھا جب کہ 1952 میں اسے قومیایا گیا تھا۔ 2005 میں اس کی نجکاری کی گئی تھی۔
اِس وقت 28 لاکھ صارفین کے ساتھ یہ کراچی میں بجلی فراہم کرنے والا واحد ادارہ ہے۔ کے-الیکٹرک نے 2018 میں اپنا منافع 29 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالرز ظاہر کیا تھا۔
پاکستانی روپے میں اس کمپنی کا ریونیو 217 ارب روپے سے زائد جب کہ خالص منافع 13 ارب 70 کروڑ روپے ریکارڈ کیا گیا تھا جو گزشتہ سال سے 57 فی صد زیادہ تھا۔
منافع میں چلنے والی کمپنی تنقید کی زد کیوں؟
معاشی لحاظ سے انتہائی مضبوط اور منافع بخش کمپنی ہونے کے لحاظ سے کے الیکٹرک دیگر کمپنیوں ہی کی طرح کبھی گھاٹے کا سودہ نہیں کرتی۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے اور پلانٹس چلانے کے لیے اس وقت اسے دو مختلف قسم کے ایندھن درکار ہوتے ہیں۔ ان میں ایک فرنس آئل اور دوسرا گیس ہے۔
فرنس آئل سے کے-الیکٹرک کا ایک پیداواری یونٹ بن قاسم پاور پلانٹ نمبر ایک چلتا ہے۔ جس سے 1260 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے مگر ایک جانب جہاں اس پرانے پلانٹ کی صلاحیت محض 32 فی صد ہے تو دوسری جانب اس کے لیے درکار ہائی فرنس آئل پاکستان کی سرکاری آئل مارکیٹنگ کمپنی پی ایس او کی جانب سے ضرورت سے نصف فراہم کیا جا رہا ہے۔
کے الیکٹرک کی ترجمان اور ہیڈ آف کمیونیکیشنز افشاں نور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ادارے کی فرنس آئل کی ضرورت 4000 ٹن یومیہ ہے مگر اسے مئی اور جون میں 2000 ٹن یومیہ فرنس آئل فراہم کیا جاتا رہا ہے۔
ان کے خیال میں اس کی وجہ ملک میں گزشتہ چند ماہ سے جاری پیٹرولیم مصنوعات کا بحران ہے۔
افشاں نور کا کہنا تھا کہ پی ایس او کو اپریل میں ایک لاکھ 20 ہزار ٹن فرنس آئل دینے کی درخواست کی گئی تھی جسے 15 مئی کو ری کنفرم کرنے کے بعد اب جا کر انہیں یہ سپلائی ملنے لگی ہے۔ اسی وجہ سے بن قاسم پاور پلانٹ-ون سے شہر کو بجلی کی فراہمی میں کمی دیکھنے میں آئی۔
ترجمان کے مطابق نہ صرف کے-الیکٹرک بلکہ فرنس آئل کی کم سپلائی سے وہ آئی پی پیز بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں جس سے کے-الیکٹرک بجلی خرید کر صارفین کو فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں حالیہ دنوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کے-الیکٹرک کی جانب سے پیدا ہونے والی بجلی کا محض 15 سے 20 فی صد ہی فرنس آئل پر منحصر ہے جب کہ باقی گیس پر، تو پھر اس قدر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ اس پر ترجمان نے کمپنی کا موقف دیتے ہوئے بتایا کہ فرنس آئل کی کم سپلائی پر سوئی سدرن گیس کمپنی کو سپلائی میں اضافے کی درخواست کی گئی جس نے کے-الیکٹرک کو 190 ایم ایم سی ایف ڈی سے بڑھا کر 240 ایم ایم سی ایف ڈی سپلائی کی ہے تاہم اسے بھی 290 ایم ایم سی ایف ڈی تک ہونا چاہیے تاکہ گیس پر چلنے والے تمام پلانٹس اپنی مکمل استعداد کے ساتھ بجلی پیدا کرسکیں۔
تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی کے-الیکٹرک کے اس موقف کو گمراہ کن قرار دیتی ہے جس میں گیس کمپنی کی کم سپلائی کو کراچی میں بجلی کے بحران کی وجہ بتایا جاتا ہے۔
ترجمان سوئی گیس کمپنی کے مطابق کے-الیکٹرک کو عام حالات میں 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی ہے جب کہ بجلی کے موجودہ بحران کے باعث کے-الیکٹرک کی درخواست پر یہ سپلائی مزید 50 ایم ایم سی ایف ڈی بڑھائی جا چکی ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں حیرت انگیز بات یہ بھی بتائی کہ دونوں اداروں کے درمیان گیس سیل ایگریمنٹ محض 10 ایم ایم سی ایف ڈی کا ہے اور وہ بھی کئی دہائیوں پرانا معاہدہ ہے۔
اسی طرح کے-الیکٹرک نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا ایک کارخانہ قائم کرنے کے لیے بھی درخواست حکومت کو دی ہے لیکن اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
اے کے ڈی سیکوریٹیز میں ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ اور پاور سیکٹر پر نظر رکھنے والے محقق علی اصغر پونا والا نے بتایا کہ کے-الیکٹرک اس بارے میں 2016 سے کوشش میں ہے کہ کوئلے سے بجلی کے حصول کے لیے اجازت حاصل کی جائے مگر کے-الیکٹرک کی جانب سے یہ درخواست دیر سے دی گئی جب کہ بجلی کی پیداوار کے میدان میں اب ملک میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی کیوں کہ اس وقت بھی ملکی ضرورت سے زائد بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
پاور سیکٹر سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کراچی میں بجلی کی کمی کیوں ہے اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
کچھ ماہرین کا زور اس نکتے پر بھی ہے کہ کے الیکٹرک درحقیقت فرنس آئل سے بجلی بنانا ہی نہیں چاہتی۔ اس سے کمپنی کے پیداواری اخراجات بڑھیں گے اور منافع کم ہوگا۔
کے-الیکٹرک کی انتظامیہ کی پالیسی کو توانائی کے شعبے کے ماہرین عارضی اقدامات قرار دیتے ہیں جب کہ اسے کمپنی کا منافع بخش کاروبار چلانے پر اکتفا قرار دیتے ہیں۔
کے-الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ کمپنی کو فروخت کرنے کے لیے بھی رضامند ہے۔ 2016 میں اس مقصد کے لیے چین کی شنگھائی الیکٹرک نے کے-الیکٹرک کے 66 فی صد شئیرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی مگر صرف چند روز قبل ہی شنگھائی الیکٹرک کی جانب سے یہ پیشکش واپس لے لی گئی ہے۔
لائن لاسز بھی لوڈشیڈنگ میں اضافے کا سبب
بجلی کی فراہمی میں ایک اہم چیز ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ لاسز جنہیں لائن لاسز یا بجلی کی ترسیل میں نقصانات بھی کہا جاتا ہے، انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اس وقت کے-الیکٹرک کے لائن لاسز 20 فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ جس کی قیمت لامحالہ طور پر کراچی کے شہری ہی زیادہ بلز دے کر ادا کرتے ہیں۔
تاہم کے الیکٹرک کی ترجمان کے دعوے کے مطابق ادارہ اب تک پیداواری صلاحیت بڑھانے اور نقصانات کم کرنے کے سلسلے میں پرائیوٹائزیشن کے بعد 3 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے جس سے 1057 میگاواٹ اضافی بجلی کی پیداوار ممکن ہوئی جب کہ لائن لاسز کی شرح بھی 38 سے کم ہو کر 19 فی صد تک لائے جا چکی ہے۔
پاور سیکٹر پر نظر رکھنے والے اصغر پونا والا کے بقول ایسے نقصانات تکنیکی اور غیر تکنیکی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ کے الیکٹرک نے اپنے غیر تکینکی نقصانات یعنی چوری، فراڈ اور میٹر میں ردو بدل کرکے اسے آہستہ چلانے وغیرہ کو کم کرنے پر تو زور دیا ہے مگر تکنیکی نقصانات جس میں پلانٹس کی استعداد کار بڑھانا، ایکسٹرا ہائی ٹینشن لائنز کو نمی کے نقصانات سے محفوظ رکھنے اور اعلیٰ معیار کی ڈسٹریبیوشن وائرز کے استعمال کے لیے اقدامات پر زیادہ زور نہیں دیا۔
ان کے بقول کے الیکٹرک اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے جس میں کمپنی سمجھتی ہے کہ اس مد میں اضافی سرمایہ کاری سے بہت کم ہی رقم کی واپسی کی توقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سال سے کے-الیکٹرک کی جانب سے انفراسٹرکچر کی بہتری میں سرمایہ کاری میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ان کے مطابق کئی شعبوں میں اگرچہ کمپنی کی جانب سے بہتری تو لائی گئی ہے مگر آخر میں بہرحال یہ ایک پرائیوٹ کمپنی ہے جو منافع کے حصول کے لیے ہی کاروبار کر رہی ہے۔
ریگولیٹر کا کردار کیا ہے؟
اصغر پونا والا کے مطابق اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ اور اہم کردار ملک میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا ) کا ہے۔ جس کا کام ہے کہ وہ پاور کمپنی کو اس سمت میں لے کر جائے جہاں ایک جانب لوگوں کو بھی اس کا فائدہ مل رہا ہو اور دوسری جانب کمپنی کو اس کا جائز منافع بھی ملتا رہے۔
کراچی میں 2019 میں برسات کے موسم میں کرنٹ لگنے سے 19 افراد کی ہلاکت پر ڈسٹری بیوشن اور پرفارمنس معیارات برقرار نہ رکھنے پر نیپرا نے کے-الیکٹرک کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا جب کہ ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کا بھی حکم دیا تھا۔ مگر اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ یہ معاملہ اب بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
اسی طرح گزشتہ سال شہر میں ہونے والے کئی بڑے بلیک آوٹس پر بھی ادارے پر جرمانے عائد کیے گئے مگر یہ معاملہ بھی دوسرے فریق کی جانب سے عدالت میں لے جانے پر اس پر حکم امتناع جاری کیا جا چکا ہے۔
شہریوں کے مطابق اوور بلنگ اور بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ پر بھی نیپرا کی جانب سے نوٹسز لینے اور ہدایات جاری کرنے سے متعلق تو بتایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماہرین کے بقول ان ایشوز پر جب تک حکومتی گرفت اور رٹ عملی طور پر نظر نہیں آئے گی۔ یہ معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے اور کراچی والے سخت گرمی ہی نہیں بلکہ سردیوں کے موسم میں بھی بجلی کے حصول کے لیے دہائیاں دیتے نظر آئیں گے۔