سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز ویڈیو بنانے کے معاملے میں ملزم آغا افتخارالدین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی طلب کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جمعے کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز ویڈیو بنانے والے ملزم آغا افتخارالدین کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ جج کی اہلیہ نے تھانہ سیکرٹریٹ اسلام آباد میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن سائبر کرائم کا معاملہ ہونے کی وجہ سے پولیس نے کیس ایف آئی اے کو بھجوا دیا ہے اور ایف آئی اے نے کارروائی شروع کر دی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ججز کے دیگر معاملات بھی ہیں۔ ایف آئی اے کو کچھ کرنا نہیں آتا اور وہ کچھ نہیں کر رہا۔ اس نے آج تک کسی معاملے پر نتائج نہیں دیے۔
اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو میں ملک کے ادارے کو دھمکی دی گئی اور جج کا نام تضحیک آمیز انداز میں لیا گیا۔ ریاستی مشینری نے تاخیر سے ایکشن کیوں لیا؟
SEE ALSO: کیا اسٹیبلشمنٹ جسٹس فائز عیسیٰ سے چھٹکارا چاہتی ہے؟اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ایسا کوئی طریقۂ کار نہیں ہے کہ ہر چیز کو مانیٹر کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا اس قسم کے مواد سے بھرا پڑا ہے۔
دوران سماعت آغا افتخارالدین مرزا کی وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل خود عدالت آئے تھے لیکن پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس نے انہیں کیوں پکڑ لیا؟ مولانا صاحب کو بلا لیں۔
کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے آغا افتخارالدین کو عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کر لیا اور ویڈیو بیان جاری کرنے والے ملزم آغا افتخارالدین مرزا کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی درخواست
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں درخواست دی تھی کہ ان کے شوہر کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے شک ظاہر کیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو دھمکیاں دینے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے صحافی احمد نورانی پر حملہ کیا تھا۔
اپنی درخواست میں سرینا عیسیٰ نے کہا ہے کہ ان کے پاس ایک ویڈیو ہے جو وہ پولیس کو فراہم کر رہی ہیں۔ اس میں ایک شخص کہتا ہے کہ جو شخص بدعنوانی میں ملوث ہے چاہے وہ فائز عیسیٰ ہو، اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے۔
درخواست کے مطابق ویڈیو میں موجود شخص کا نام آغا افتخارالدین مرزا ہے۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ انہیں اس شخص کا نام انٹرنیٹ سے معلوم ہوا ہے اور وہ تصدیق نہیں کر سکتیں کہ یہ اس کا اصلی نام ہے یا نہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا ہے کہ "بہت سے طاقت ور لوگ میرے شوہر سے ناخوش ہیں۔ ہم جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں ان میں اس ویڈیو کو قتل کی دھمکی سمجھتی ہوں۔ میرے شوہر کے خلاف کسی عبدالوحید ڈوگر نے درخواست جمع کرائی تھی۔ میرے شوہر نے سوال کیا کہ عبدالوحید ڈوگر کون ہے لیکن اس کا جواب حکومت نے اب تک نہیں دیا۔"
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے مرزا شہزاد اکبر نے عبدالوحید ڈوگر سے ملاقات کی تھی۔ اس لیے ان سے پوچھا جائے کہ وہ شخص کون ہے جسے طاقت ور لوگ استعمال کر رہے ہیں۔
ویڈیو میں موجود شخص مولوی آغا افتخار کون ہے؟
سرینا عیسیٰ کی درخواست میں جس ویڈیو کا ذکر کیا گیا ہے وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس ویڈیو میں موجود شخص مولوی آغا افتخارالدین مرزا راولپنڈی کا رہائشی اور ایک مدرسے کا منتظم ہے۔
آغا افتخار نے اپنی ویڈیو میں جسٹس عیسیٰ کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا نام بھی لیا ہے اور انہیں غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا ہے۔
ویڈیو میں آغا افتخار نے کہا ہے کہ کرپشن کے انسداد کے لیے چین کا طریقۂ کار اختیار کیا جانا چاہیے کہ جو شخص مالی بدعنوانی میں پکڑا جائے، چاہے وہ فائز عیسیٰ ہو، نواز شریف یا زرداری، اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے۔
ویڈیو میں صحافی حامد میر اور محمد مالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میڈیا میں ایسے لوگ ہیں جنہیں بات کرنے کی تمیز نہیں۔ مولانا طارق جمیل کو ان سے معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی۔