سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے ریفرنس کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران سلائی مشین سے پیسہ کمانے کی بات سامنے آگئی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل کونسل جج کی اہلیہ کو بلا کر آمدن سے متعلق پوچھ سکتی ہے؟ جج کی اہلیہ بتا دیں کہ سلائی مشین کی آمدن سے دکان خریدی ہے۔
اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے۔ اہلیہ آ کر بتا دیں پیسہ کہاں سے آیا۔ پیسہ باہر کیسے گیا۔
تاہم اس پر جسٹس قاضی امین نے تنبیہ کی کہ فروغ نسیم کافی ہو گیا۔ میں تقاضا کروں گا کہ ایسی مثالیں نہ دیں جو توہین آمیز ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو فروغ نسیم نے کہا کہ آج پبلک ٹرسٹ اور ججز کی معاشرے میں حیثیت پر دلائل دوں گا۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ اپنے نکات پر دلائل دیں۔ہم ججز کے احتساب سے متفق ہیں۔ درخواست گزار نے بدنیتی اور غیر قانونی طریقے سے شواہد اکٹھے کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں۔ عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے۔ اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے۔ مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے۔ درخواست گزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا۔ درخواست گزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاملہ جوڈیشل کونسل کے پاس بھی چلا جائے۔ اگر بدنیتی نہیں ہے تو کونسل کارروائی کر سکتی ہے۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم کو پیشکش کی کہ یہ ہوسکتا ہے پہلے ایف بی آر کو معاملے پر فیصلہ کرنے دیا جائے۔ وہاں پر فیصلہ اہلیہ کے خلاف آتا ہے تو پھر جوڈیشل کونسل میں چلا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف بی آر میں جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع بتائے جائیں تو کونسل میں دوبارہ واپس آ جائیں۔ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیں۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔ فروغ نسیم ایف بی آر میں کارروائی کے معاملے پر سوچ لیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کی نظر میں یہ ایک بہتر راستہ ہو سکتا ہے۔ جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ ضابطے کی کارروائی کا انحصار کسی دوسری کارروائی پر ہوگا۔ جب ضابطے کی کارروائی کسی دوسری کارروائی پر انحصار کرے گی تو آزادانہ کارروائی کیسے ہو گی۔ اس صورت حال میں ضابطے کی کارروائی کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار کسی فورم کی کارروائی پر نہیں ہے۔ ضابطے کی کارروائی میں نہیں کہہ سکتے کہ میری اہلیہ خود کفیل ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق قانون کی سہولت عام شہری کو دسیتاب ہے۔ ججز کو قانون کے مطابق یہ سولہت میسر نہیں ہے؟
فروغ نسیم نے کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت اہلیہ خاوند سے الگ نہیں ہیں۔ فروغ نسیم نے سوال کیا کہ ایف بی آر کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے تو ٹائم فریم کیا ہوگا۔
جسٹس عمر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انکم ٹیکس کہہ دے کہ ذرائع درست ہیں۔ ہو سکتا ہے ٹیکس اتھارٹی کے فیصلے سے جوڈیشل کونسل اتفاق کرے یا نہ کرے۔ دیکھنا تو یہ ہے جائیداد کی خریداری حلال ہے یا دوسرے طریقے سے ہوئی ہے۔ ہمیں جوڈیشل کونسل پر مکمل اعتماد ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے وزیرِ اعظم اور صدرِ مملکت سے مشاورت کے لیے وقت دیا جائے۔ جس پر جسٹس عمر نے کہا کہ چلیں ابھی آپ اپنے دلائل دیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ حکومت نے نہیں مانگا۔ ایف بی آر سے ٹیکس کا ریکارڈ جوڈیشل کونسل نے منگوایا۔
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ فاضل وکیل ایسا نہ کریں۔ ایف بی آر کو ٹیکس ریکارڈ معلومات کے لیے پہلے خط حکومت کی جانب سے لکھا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کیا خاوند ایف بی آر سے براہ راست اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ مانگ سکتا ہے۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میرے خیال سے خاوند ریکارڈ مانگ سکتا ہے۔
جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ خیال نہیں ہے آپ قانون سے بتائیں۔ اہلیہ معلومات دینے سے انکار کرے تو ایسی صورت میں خاوند ٹیکس ریکارڈ کیسے حاصل کرے گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ریفرنس آنے سے قبل ایف بی آر اور اے آر یو نے کیسے معلومات حاصل کر لیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اے آر یو یونٹ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج سکتا ہے؟ اے آر یو یونٹ کیسے بنایا گیا۔ وزیرِ اعظم صرف وزارت بنا سکتے ہیں۔ اے آر یو یونٹ کیا ہے معلومات کیسے حاصل کی گئی۔
جسٹس عمر عطا نے فروغ نسیم کو کہا کہ آپ پہلے ایف بی آر کے معاملے پر ہدایات وزیرِ اعظم یا صدر سے لے لیں۔
فروغ نسیم نے مہلت کے متعلق پوچھا کہ ایف بی آر پر معاملہ چھوڑ دیا جائے تو ٹیکس اتھارٹی کو کتنا وقت دیا جائے گا۔
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں۔ ایف بی آر کو کہہ دیں گے کہ چھٹیوں میں معاملے پر فیصلہ کر دیں۔ آپ ہدایات لے لیں اگر ہدایات منفی میں آتی ہیں تو دلائل دیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارے ریفرنس میں خامیاں نہیں ہیں۔ یہ سوال نہیں۔ آرٹیکل 209 بڑی سنجیدہ کارروائی ہے۔ وحید ڈوگر کی شکایت اٹھا کر کونسل کو نہیں بھیج سکتے تھے۔ وزیرِ اعظم اور صدر نے وحید ڈوگر کی معلومات کی تصدیق کرائی۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اس کارروائی میں صدر کے خلاف بدنیتی کا الزام نہیں ہے۔ صدرِ مملکت کے پاس بھی انکوائری کا اختیار نہیں ہے۔ ریفرنس میں کرپشن کا کوئی مواد نہیں ہے۔ صدرِ مملکت کا اپنی رائے بنانا آئینی رائے ہے۔ افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کا سارا کام ایک دن میں ہوا تھا۔ افتخار چوہدری کے خلاف ایک دن میں ریفرنس بنا اور کونسل بھی بن گئی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ میں انتہائی احترام سے کہتا ہوں آپ کے سوال سے متفق نہیں۔ اگر آپ کے سوال کو درست مان لیں تو آرٹیکل 48 کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔
جسٹس عمر نے کہا کہ آرٹیکل 48-ون کے تحت صدرِ مملکت کو ربڑ اسٹمپ نہیں بنایا۔ صدرِ مملکت اپنا ذہن استعمال کر سکتے ہیں۔ فیصلے میں یہ بات لکھیں گے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے آپ دلائل دینے دیں۔ جو عدالت نے آپشن دیا اس پر کل جواب دوں گا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ حکومت کے ہاتھ بالکل صاف ہیں۔ ایف بی آر کے معاملے پر فیصلے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی سے اثاثے چھپانے پر وضاحت مانگی جاتی ہے۔ جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی پٹیشن نہیں ہے۔ پانامہ اور خواجہ آصف کے مقدمات میں اثاثے چھپانے پر رٹ پٹیشن دائر ہوئی تھی۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہی سوال ہے کونسل کس قانون کے تحت جج سے اہلیہ کی جائیداد پوچھ سکتی۔
فروغ نسیم نے اس کیس کے حوالے سے مہم چلنے پر کہا کہ منفی مہم چاہے ہمارے خلاف ہو یا درخواست گزار کے خلاف، وہ قابل مذمت ہے۔ جائیداد جج کی ہے۔ ٹرائل پر ہم ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ کس صورت حال سے گزر رہا ہوں۔ الزام ہم پر لگ رہا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اسی طرح اندازہ کریں کہ جج کس عذاب سے گزر رہے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھیں کیسے پریس کانفرنس ہوئی تھی۔ ہمارا ملک کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم آپ کے جذبات کو اہم سمجھتے ہیں۔ ان باتوں کو نظر انداز کریں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل کے پوچھنے پر جج کے جواب دینے سے عدلیہ کا اعتماد بڑھے گا۔ خود کفیل اہلیہ پر سول سرونٹ جوابدہ نہیں اس لیے قانون میں تفریق پیدا کرنی پڑے گی۔ باقی سول ملازمین تو اہلیہ کی جائیداد کی وضاحت دیں۔ ایک سول سرونٹ کہتا ہے میں اہلیہ کی جائیداد پر جواب نہیں دوں گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا کونسل جج کی اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے؟ جج کی اہلیہ بتا دے کہ سلائی مشین کی آمدن سے دکان خریدی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل جج کی اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے۔ اہلیہ آکر بتا دیں پیسہ کہاں سے آیا۔ پیسہ باہر کیسے گیا۔
اس پر جسٹس قاضی امین نے خفگی سے حکومتی وکیل کو کہا کہ فروغ نسیم کافی ہوگیا۔ میں تقاضا کروں گا ایسی مثالیں نہ دیں جو توہین آمیز ہوں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 25 کے تحت کونسل کے پوچھنے پر جج کو اہلیہ کی جائیداد کا بتانا ضروری ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو بدنیتی اور شواہد کے غیر قانونی طریقے سے اکھٹا کرنے پر بھی سنیں گے۔ جاسوسی کے نکتے پر بھی آپ کو سننا چاہیں گے۔ ایف بی آر کے معاملے پر آپ نے رضا مندی کا اظہار کیا تو منیر اے ملک کی رضا مندی بھی لیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم کو دلائل ختم کرنے کے لیے کل تک کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ کل اگر ہمیں رات دیر تک بھی بیٹھنا پڑا تو آپ کو سنیں گے۔
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔
اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا۔