سپریم کورٹ نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا پر نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اس معاملے پر مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ کمرۂ عدالت میں چیف جسٹس کی طرف سے مبینہ اغوا کہے جانے پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ جناب میں اغوا ہی ہوا تھا۔
سپریم کورٹ میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان توہین عدالت کیس میں پیش ہوئے۔ اس کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ان کے گزشتہ روز ہونے والے اغوا سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کل بہت شور تھا کہ مطیع اللہ جان اغوا ہو گئے ہیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے بھائی نے مقدمہ درج کرایا ہے۔ بھائی کے بقول مطیع اللہ جان گزشتہ رات واپس آ گئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ واپس آگئے، کیا مطلب؟ کیا مطیع اللہ جان خود اغوا ہوئے تھے جو واپس آ گئے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا؟ واپسی کے بعد پہلا کام ہی بیان ریکارڈ کرنا بنتا تھا۔ از خود نوٹس کا اغوا سے کیا تعلق؟
جس پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ توہین عدالت کیس کا میرے اغوا سے براہِ راست تعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو بھی کہنا ہے وکیل کے ذریعے تحریری طور پر کہیں اور الفاظ کے چناؤ میں بھی احتیاط کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی ادارے کو قانون کے ساتھ کھیلنے نہیں دیں گے۔ آئین ہر شخص کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔
توہین عدالت کیس کے معاملے پر مطیع اللہ جان نے درخواست کی کہ اس کیس میں وکیل کرنے اور شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت جانب دار نہیں ہے۔ ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دینے کے لیے ہی بیٹھے ہیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد مطیع اللہ جان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رہائی ان سب کی وجہ سے ممکن ہوئی جنہوں نے آواز اٹھائی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے اغوا پر پاکستان کی صحافی برادری، عدلیہ اور سول سوسائٹی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فوری کارروائی کی جس کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن ہوئی۔
ان کے بقول ان سب کی وجہ سے حکومت مجبور ہوئی کہ وہ مجھے رہا کرے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ صحافیوں پر تشدد یا انہیں اغوا کرکے ڈرایا جا سکتا ہے۔
مطیع اللہ جان کے اغوا اور رہائی پر سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی بھی سویلین ادارہ ملوث نہیں تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ رات اس حوالے سے پروگرام کر رہے تھے۔ پروگرام کے آخری حصے میں وہ مطیع اللہ جان کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ ایک غیر سویلین ادارے کی طرف سے ان کے دفتر فون کیا گیا اور اس حصے کو سِنسر کرا دیا گیا۔
ان کے بقول اسی وجہ سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ پاکستان کا کوئی سویلین ادارہ اس میں ملوث نہیں ہے۔
حامد میر نے اسلام آباد کی پولیس کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج کمرۂ عدالت میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کیوں موجود نہ تھے۔ اسلام آباد میں سیف سٹی کیمرے لگے ہوئے ہیں لیکن دن دیہاڑے ایک صحافی کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ پولیس نے اس حوالے سے مکمل لا علمی کا اظہار کیا ہے۔
ان کے بقول اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہمارا یہ تاثر گیا ہے کہ اس شہر میں کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت اغوا کیا جا سکتا ہے اور اسے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ مجھ پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو میں نے جن افراد کی نشاندہی کی تھی اس پر کبھی بھی ان افراد کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ بھی جب جب صحافیوں پر حملے ہوئے کوئی مدد نہیں کی گئی اور آج تک کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی۔
تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ عمران خان کی حکومت پر تحفظات کے باوجود ہماری درخواست ہے کہ مطیع اللہ جان کے معاملے پر وہ مکمل تحقیقات کرائیں اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں۔
مطیع اللہ جان نے اس معاملے پر مزید بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اغوا کے حوالے سے پولیس کو بیان ریکارڈ کروانے کے بعد ہی میڈیا سے بات کریں گے۔
سپریم کورٹ میں مطیع اللہ جان اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ آئے تھے۔
مطیع اللہ جانب کی آمد پر تمام صحافیوں نے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ تمام صحافی ان کے ساتھ کمرۂ عدالت میں پہنچے۔
مطیع اللہ جان کو گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس تھری سے اغوا کیا گیا تھا اور 12 گھنٹوں کے بعد اسلام آباد کے نواح میں فتح جھنگ کے قریب چھوڑ دیا گیا تھا۔
مطیع اللہ جان کے اغوا پر ملک بھر میں شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا تھا۔ وزیرِ اعظم عمران خان اور وزارت داخلہ نے بھی مطیع اللہ جان کی رہائی کے لیے اقدامات کی ہدایت کی تھی۔
پاکستان میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی صحافی کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ماضی میں بھی صحافی حامد میر پر کراچی میں حملہ ہوا۔ احمد نورانی اور عمر چیمہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹرز وداؤٹ بارڈر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کو صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ملک تصور کرتے ہیں۔