ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان کے اگست کے وسط میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ملک میں کم از کم 40 فی صد میڈیا ادارے ختم ہو گئے ہیں اور 80 فی صد خواتین صحافی اپنی ملازمت کھو چکی ہیں۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے اپنے مقامی معاون تنظیم ’افغان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن‘ (اے آئی جے اے) کے ساتھ مل کر افغانستان کے کبھی انتہائی فعال رہنے والے میڈیا سے متعلق نیا سروے منگل کو جاری کیا ہے۔
سروے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دارالحکومت کابل سمیت ملک بھر میں صحافیوں کے لیے ماحول 'انتہائی خراب' ہو گیا ہے۔
اس سروے میں طالبان کے ملک پر کنٹرول سے قبل اور بعد میں افغانستان میں میڈیا اداروں اور صحافیوں سے سروے میں ماضی کی صورتِ حال کے اعداد و شمار حاصل کیے گئے ہیں۔
افغانستان سے متعلق سروے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں موسمِ گرما کے آغاز کے وقت 543 میڈیا ادارے تھے۔ البتہ نومبر کے اختتام تک صرف 312 ادارے فعال رہے تھے۔
اگست کے وسط میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے 6400 سے زیادہ صحافی اور میڈیا ملازمین اپنی ملازمت کھو چکے ہیں۔
سروے میں مرد و خواتین کی نوکری ختم ہونے کا تناسب بھی بتایا گیا ہے جس کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہر پانچ میں چار یعنی 84 فی صد خواتین اور ہر دو میں سے ایک 52 فی صد مرد اپنی ملازمت کھو چکے ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان: کابل میں مسلح افراد کا صحافی پر حملہافغانستان کے 34 سے 15 صوبوں میں اس وقت کوئی خاتون صحافی کام کرنے نہیں کر رہیں۔ شمالی صوبے جوزجان میں 19 میڈیا اداروں میں 112 خواتین کام کرتی تھیں۔ اب وہاں 12 میڈیا ادارے موجود ہیں جن میں کوئی خاتون موجود نہیں ہے۔
طالبان نے مختلف علاقوں میں مقامی میڈیا سے مبینہ طور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین صحافیوں کو ملازمت نہ دیں۔ چار ماہ قبل تک ملک کے زیادہ تر صوبوں میں کم از کم 10 نجی میڈیا ادارے فعال تھے اور عوام تک معلومات پہنچا رہے تھے۔ البتہ اب کچھ علاقوں میں تقریباً کوئی بھی مقامی نجی میڈیا کا ادارہ نہیں ہے۔
سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دارالحکومت کابل بھی، جہاں دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ذرائع ابلاغ کے ادارے موجود تھے، اس صورتِ حال سے محفوظ نہیں رہا اور ہر دو میں سے ایک یعنی 51 فی صد ادارے بند ہو چکے ہیں۔
رواں برس 15 اگست سے قبل کابل میں 148 ادارے تھے جب کہ اب صرف 72 فعال ہیں۔ اسی طرح اگست کے آغاز میں دارالحکومت میں 1100 خواتین صحافی اور میڈیا ورکرز تھیں جن میں سے 73 فی صد اب کام چھوڑ چکی ہیں اور صرف 320 کام کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سیکڑوں صحافیوں نے طالبان کے خوف سے افغانستان چھوڑ دیا ہے۔
طالبان نے اپنی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ’صحافتی قواعد‘ بھی جاری کیے تھے جس میں طالبان کے بیان کردہ ’اچھے کاموں کو کرنے اور برے کاموں کو نہ کرنے' کا کہا گیا تھا۔
سروے میں ان قواعد کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ اصول سینسرشپ اور ظلم و ستم کے راستے کھولتے ہیں اور صحافیوں کو ان کی آزادی سے روکتے ہیں۔
البتہ طالبان حکام مختلف مواقع پر تشدد کے واقعات یا میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے پیچھے ان کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
SEE ALSO: طالبان حکومت میں افغان ٹی وی اور ریڈیو سے خواتین غائبرپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت شریعت اور اسلام کے مطابق ملک کے وسیع مفاد کے تحفظ کے لیے بتائے گئے فریم ورک میں میڈیا کی آزادی کی حمایت کرتی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے 15 اگست سے صحافیوں کے خلاف لگ بھگ 40 تشدد کے واقعات پر کہا کہ طالبان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور کنٹرول کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ادھر آر ایس ایف کے ایران افغانستان ڈیسک کے سربراہ رضا معینی نے کہا ہے کہ افغان میڈیا کے تیزی سے خاتمے کو روکنے کی فوری ضرورت ہے اور آزادیٴ صحافت کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔
آئی اے جے اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر حجت اللہ مجددی کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے علاوہ ملک کے لگ بھگ آدھے میڈیا اداروں کی بندش اور چھ ہزار نوکریوں کا ختم ہونا آزادیٴ صحافت کے لیے تباہ کن ہے۔