پنجاب کے علاقے ننکانہ صاحب میں پولیس نے مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں زیرِ حراست شخص کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کا مقدمہ درج کرکے 70 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں ہفتے کو مشتعل ہجوم نے مبینہ توہینِ مذہب کے ملزم وارث علی کو پولیس کی حراست سے چھڑا کر زندہ جلا دیا تھا جس کے بعد اُس کی لاش کی بے حرمتی بھی کی گئی تھی۔ واقعہ سامنے آنے پر آئی جی پولیس نے علاقے کے ایس ایچ اور ڈی ایس پی کو معطل کر دیا تھا۔
شیخوپورہ کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) بابر سرفراز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 11 فروری 2022 کو ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والا مبینہ توہینِ مذہب کا ملزم چند ماہ قبل جیل سے رہا ہو کر آیا تھا۔
بابر سرفراز کے مطابق مقتول کے خلاف 2019 میں بھی توہینِ مذہب کا مقدمہ درج ہوا تھا جس میں اُس کے خلاف کیس چلا اور اے سزا ہوئی جس پر اسے جیل بھیج دیا گیا تھا جو گزشتہ سال جون میں رہا ہو کر آیا تھا۔
پولیس نفری کی کمی
آر پی او شیخوپورہ کے مطابق جب مذکورہ شخص نے مبینہ توہینِ مذہب کی تو لوگوں نے اِسے پکڑ لیا اور زدوکوب کرنے لگے البتہ اطلاع ملتے ہی 10 سے 12 منٹ میں پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اِسے حراست میں لے لیا۔
ان کے مطابق اِس دوران لوگوں کی تعداد کو بڑھتا ہوا دیکھ کر پولیس نے ملزم کو محفوظ جگہ پر منتقل کرنے کی کوشش کی جو کہ ایسے کیسز میں پولیس" ایس او پیز " یعنی طریقہ کاربھی ہیں۔ جائے وقوعہ سے تھانہ قریب تھا۔ پولیس نے کوشش کر کے ملزم کو باحفاظت تھانے پہنچا دیا۔
SEE ALSO: ننکانہ میں توہینِ مذہب کے ملزم کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت، وزیرِ اعظم کا نوٹساُن کا کہنا تھا کہ اِسی دوران علاقے میں توہینِ مذہب کی اطلاع پھیل گئی یا پھیلا دی گئی، جس کے بعد ہجوم بھی وہاں پہنچ گیا جن کی تعداد 900 سے 1000 افراد تھی۔ ہجوم میں سے کچھ لوگ تھانے کی دیوار سے سیڑھیوں کی مدد سے داخل ہوئے اور دروازے کھول دیے۔
ملزم کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ تھانے میں چھ سے سات پولیس اہلکار موجود تھے۔ایلیٹ فورس کے چار اہلکار بھی تھانے پہنچے البتہ تھانے میں ہجوم بڑھتا گیا جنہوں نے پولیس اہلکاروں سے الجھنا شروع کر دیا۔ پولیس کی اضافی نفری ننکانہ صاحب سے آنا تھی البتہ یہ فاصلہ 21 سے 22 کلو میٹر تھا۔
ملزمان کی گرفتاری
ننکانہ صاحب کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ننکانہ صاحب عاصم افتخار کہتے ہیں کہ پولیس نے کیمروں اور فوٹیجز کی مدد سے 70 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان کے مطابق اس کیس میں بہت سے اہم موڑ ہیں جن کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی ویڈیوز کی مدد سے دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کی پوری کوشش ہے کہ واقعے میں کسی بھی بے گناہ شخص کو حراست میں نہ لیا جائے یا کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ واقعہ اِس قدر کم وقت میں ہوا کہ پولیس نے ملزم کو بچانے کی بھرپور کوشش کی البتہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔
ملزمان کا جوڈیشل ریمانڈ
ڈی پی او ننکانہ صاحب کے مطابق واقعہ میں ملوث چھ ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیر کو پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے اُن کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
SEE ALSO: راولپنڈی:توہینِ مذہب کے الزام میں ایک شخص گرفتار،مشتعل افراد کا تھانے پر دھاواننکانہ صاحب پولیس کے مطابق واقعے کے دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایک مشتعل ہجوم کے خلاف جس نے ملزم وارث کو قتل کیا۔ یہ ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے جس کی کوئی معلومات کسی کو فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ دوسری ایف آئی آر وارث کے خلاف 296 بی کے تحت تھانہ وار برٹن میں درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ہفتے کی صبح نمازِ فجر کے بعد توہین مذہب پر مبنی مواد بازار میں بکھرا دیکھا گیا، جس کےبعد علاقے کے کچھ افراد نے نامعلوم ملزم کی تلاش شروع کر دی۔
ملزم کے اہلِ خانہ سے متعلق شیخو پورہ کے آر پی او بابر سرفراز کا کہنا تھا کہ ہجوم کے ہاتھوں جلائے جانا والا ملزم اکیلا رہتا ہے جس سے اس کی اہلیہ نے چار سال قبل خلع لے لی تھی جب کہ اِس کی والدہ اور سوتیلے بھائی نے ملزم کی اسی قسم کی حرکتوں سے تنگ آ کر اس سے لا تعلقی اختیار کر لی تھی۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مارے جانے والے شخص کے خاندان سے رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔