لیفٹننٹ جنرل (ر) عارف حسن 19 برس بعد اولمپک ایسوسی ایشن کی صدارت سے مستعفی

عارف حسن 2004 میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان اولمپک ایسو سی ایشن (پی او اے) کے صدر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عارف حسن لگ بھگ 19 برس بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔

پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کے نام ایک خط میں 73 سالہ عارف حسن نے لکھا کہ وہ یکم جنوری 2024 کو عہدہ چھوڑ دیں گے۔

اس خط میں انہوں نے بتایا ہے کہ وہ خرابیٴ صحت کی وجہ سے اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ یہ ان کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا۔

سید عارف حسن نے پی او اے میں گزرے وقت کو یادگار قرار دیتے ہوئے چند سنگ میل طے کرنے کا کا ذکر بھی کیا ہے۔

لیکن ان کے طویل دورِ صدارت کے دوران پاکستان نے اولمپک کے کسی بھی کھیل میں، کوئی بھی میڈل نہیں جیتا جس کی وجہ سے انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ان کی کارکردگی پر نہ صرف سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سوال اٹھائے تھے بلکہ دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی کئی بار ان کی برطرفی کا کئی بار مطالبہ سامنے آتا رہا۔ لیکن انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی حمایت کی وجہ سے وہ بار بار اس عہدے پر منتخب ہوتے رہے۔

سن 2014 میں پی او اے کی صدارت کے لیے انہیں پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن کے موجودہ صدر میجر جنرل ریٹائرڈ اکرم ساہی کی جانب سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس جھگڑے کا اختتام اس وقت ہوا جب آئی او سی نے پاکستان میں وجود میں آنے والی متوازی اولمپک ایسوسی ایشن کی وجہ سے پاکستان کو معطل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے عارف حسن کی تائید کی تھی۔

فوج سے کھیل تک

عارف حسن اس وقت بھی پاکستان آرمی کا حصہ تھے جب انہیں 2001 میں شیڈول ہونے والے نویں ساؤتھ ایشین فیڈریشن گیمز (سیف گیمز) کی آرگنائزنگ کمیٹی کا چیئرمین نام زد کیا گیا تھا۔

نائن الیون کی وجہ سے سیف گیمز تو ملتوی ہوگئے تھے۔ لیکن فوج میں ان کا کریئر جاری رہا۔ اسی برس اکتوبر میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے بعد عارف حسن کور کمانڈر راولپنڈی بن گئے۔

اس سے قبل وہ بطور میجر جنرل وائس چیف آف جنرل اسٹاف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ 2003 میں انہیں کور کمانڈر منگلا مقرر کیا گیا جو فوج میں ان کی آخری آفیشل پوسٹنگ تھی۔

فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ باضابطہ طور پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدارت کے امیدوار بن گئے۔ 2004 میں انہیں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا پہلی بار صدر منتخب کیا گیا تھا اور تب سے اب تک وہ اسی عہدے پر فائز تھے۔

اگرچہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر سید عاقل شاہ نے سید عارف حسن کا استعفی منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس پر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن لیفٹننٹ جنرل عارف حسن کے دو دہائیوں تک عہدے پر رہنے کے بعد مستعفی ہونے کے فیصلے پر اسپورٹس کمیونٹی اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب ملا جلا ردِ عمل سامنا آیا ہے۔

’کارکردگی کے جائزے کا وقت آگیا ہے‘

ٹی وی اینکر منیب حمید نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 19 سال پی او اے کے صدر رہنے والے سید عارف حسن کے دور کا آڈیٹ کرنے کا وقت آگیا ہے۔

انہوں نے اپنی پوسٹ میں تجویز دی کہ سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع ہونی چاہیے جس میں عارف حسن کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جائے۔

اسپورٹس جرنلسٹ رشید شکور نے سید عارف حسن کی جگہ اس پوزیشن کے مضبوط امیدوار اکرم ساہی پر بات کرتے ہوئے لکھا کہ جنہوں نے سرکاری اور متوازی پی او اے بنائی تھی، ان کو بھی جانا چاہیے۔

فڈاٹو نامی صارف نے عارف حسن کے مستعفی ہونے کی خبر پر معروف مصرع 'کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے' لکھ کر پوسٹ کیا۔

اس پوسٹ کے جواب میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے نائب صدر شوکت جاوید نے لکھا کہ ان کی تنظیم کی ذمہ داری اسپورٹس ڈویلپمنٹ نہیں، اس لیے عارف حسن کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔

صحافی فیضان لاکھانی نے بھی عارف حسن کے مستعفی ہونے پر سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹ میں کہا کہ اس تبدیلی سے ملک میں اسپورٹس کی صورتِ حال پر تب تک کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک ملک میں کھیلوں کے فروغ دینے کا ذمے دار پاکستان اسپورٹس بورڈ اپنا کام نہیں کرتا۔


خرم ذاکر نامی صارف نے سید عارف حسن کے دور کو طنزیہ انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر کھیل کے زوال پذیر ہونے کے باوجود عارف حسن ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی خدمات انجام دیے جا رہے تھے کہ اچانک ان کے دل میں رحم آ گیا اور انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ امید ہے کہ اب کوئی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں عارف حسن سے استعفی واپس لینے کی اپیل نہیں کرے گا۔

جہاں عارف حسن پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی ہے وہیں بعض صارفین نے ان کے 19 برس پر محیط دور صدارت کی سراہا بھی ہے۔

محمد یوسف انجم نامی صارف ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے سید عارف حسن کے 19 سالہ دور کو پاکستان میں اسپورٹس کے لیے اچھا قرار دیا اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔