شام نے عرب لیگ کا وہ بیان مسترد کردیا ہے جس میں ملک میں جاری ہلاکت خیز تشدد ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔شام میں گذشتہ پانچ ماہ سے جمہوری اصلاحات کے لیے جاری تحریک کچلنے کی خاطر سیکیورٹی فورسز پکڑدھکڑ کی کارروائیاں کرتی رہی ہے۔
قاہرہ میں اتوار کی صبح عرب ممالک کی تنظیم نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا تھا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے شام کو فوری طورپر خون خرابہ روکنے کے اقدامات کرنے چاہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العربی ، بحران کے حل میں مدد کے سلسلے میں شام جانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن بیان میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا کہ وہ یہ دورہ کب کریں گے۔
شام نے اس بیان کے ردعمل میں ایک احتجاجی نوٹ جاری کیا ہے جس میں عرب لیگ پر سفارتی ضابطوں کو پائمال کرنے کاالزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دمشق اس بیان کو مسترد کرتا ہے کیونکہ ایسی کسی الزام کا وجود نہیں ہے۔
اقوا م متحدہ کا کہناہے کہ مارچ میں اصلاحات اور صدر بشارالاسد کے11 سالہ آمرانہ اقتدار کے خاتمےکے لیے شروع ہونے والی عوامی تحریک کے بعد سے اب تک 2200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔
شام کی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہناہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ہفتے کی رات اور اتوار کے روز حکومت مخالفین کی پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں میں کم ازکم چار افراد کو ہلاک کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دو افراد شمالی صوبے ادلب، تیسرا جنوبی صوبے دارا اور چوتھا شخص دمشق کے مضافاتی علاقے حرستا میں ہلاک ہوا۔
ترک صدر عبداللہ گل نے اتوار کے روزکہا کہ انقرہ شام پر اعتماد کھوچکاہے۔اور اب وہ جنوب میں واقع ایک پڑوسی ملک ہے۔ ترک کے سرکاری خبررساں ادارے اناطولیہ نے مسٹر گل کے حوالے سے کہاہے کہ صورت حال ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جس میں شام کی جانب سے کوئی بھی اقدام بہت معمولی اور بہت تاخیر سے کیا جانے والے اقدام ہوگا۔
شام کے سرکاری خبررساں ادارے ثنا نے کہاہے کہ مسٹر اسد نے اتوار کو ایک نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا جس میں حکومت سے مقامی صحافیوں پر عائد زیادہ تر پابندیوں کے خاتمے اور آزاد میڈیا اداروں کو کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے کہاگیاہے۔