شامی پناہ گزین فضل الخضر 2015 میں جب جرمنی پہنچے تو کولون میں ٹرین سے باہر نکلتے ہی ان کی نظر جس پہلی چیز پر گئی وہ شہر کا شاندار گرجا گھر تھا۔
خضر، جن کی عمر 42 سال ہے، دریائے رائن پر واقع ایک قدیم عمارت کی شان و شکوہ، اس کے جڑواں مخروطی میناروں کی آرائش و زبیائش اور اس کے فن تعمیر سے اس قدر مسحور ہوئے کہ وہاں بیٹھ کر اور اسے ہر پہلو سے دیکھتے ہوئے گھنٹوں گزار دیے۔
اس کیتھڈرل یا گرجا گھر کو گوتھک فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ تصور کیا جاتا ہے۔ تعمیرات کا یہ خصوصی اور خوبصورت آرٹ 12 صدی سے 17 صدی تک یورپ بالخصوص فرانس میں رائج رہا۔ ان تعمیرات میں مخروطی میناروں اور نقش و نگار کو خصوصی اہمیت دی جاتی تھی اور عمارت کے حسن کو مزید نکھارا جاتا تھا۔
کیتھڈرل کو دیکھ کر خضر کے اندر کا فن کار جاگ اٹھا۔ انہوں نے گرجا گھر کی ان گنت تصویریں کھینچیں، اس کے خاکے بنائے۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا،ان پر کیتھڈرل کے فن تعمیر کے سحر کا اثر گہرا ہوتا گیا اور بالآخر انہوں نے لکڑی سے اس کا ایک ماڈل بنانے کا ارادہ کیا۔
تاہم یہ کام آسان نہیں تھا۔ انہیں اپنے عزم کو لکڑی کے ایک ایسے ماڈل میں ڈھالنے میں، جو اصل کی ہو بہو نقل ہو، ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
خضر کہتے ہیں کہ میں نے اس ماڈل پر تقریباً پانچ ہزار گھنٹے صرف کیے ہیں۔
خضر، کولون کے ایک مضافاتی علاقے ’کیلک‘ میں رہتے ہیں۔ اپنے اس شاہکار کی تخلیق کے لیے انہوں نے اپنے گھر کی چھوٹی سی بیسمنٹ میں ایک ورکشاپ بنائی اور لکڑی کے ٹکڑے اکھٹے کر کے ان کی تراش خراش اور ان پر نقش نگاری شروع کی۔
ان کا تخلیق کردہ ماڈل دو میٹر یعنی تقربیاً ساڑھ چھ فٹ اونچا ہے۔ اسے مکمل کرنے کے لیے انہوں نے اتنی بارکیتھڈرل کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اس کے فن تعمیر کی باریکیوں کو سمجھنے اور اپنے ماڈل میں اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ خضر کے بقول مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے یہ کیتھڈرل میری ذات کا ہی حصہ ہے اور دل کے اندر رہنے والے ایک عزیز دوست جیسا ہے۔
خضر نے لکڑی پر کندہ کاری کا فن اپنے والد سے اس وقت سیکھا تھا جب ان کی عمر 13 سال تھی۔ ان کا گھرانا شام کے شہر حلب میں رہتا تھا جہاں ان کا لکڑی پر کندہ کاری کا کاروبار تھا۔ مگر جنگ نے سب کچھ تباہ کر دیا اور انہیں بھی اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنا گھر اور کاروبار چھوڑ کر ترکی میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اور پھر جرمنی کا شہر کولون ان کی اگلی منزل بنا۔
فضل الخضر ایک مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گرجا گھر کا ماڈل بناتے ہوئے ان کے دل میں کئی بار یہ خیال آیا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے جرمنی میں قائم عیسائیوں کی ایک مشہور عبادت گاہ کے ماڈل کے لیے خود کو وقف کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سوال میں نے اپنے والد سے بھی کیا۔ ان کا جواب تھا کہ کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہمارے پڑوسی عیسائی ہیں، اور ہم مسلمان ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو اپنے گھروں میں بلاتے رہتے ہیں اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
خضر ان دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں میں شامل ہیں جو 2015 اور 2016 میں شام، عراق اور افغانستان میں جاری جنگ، تباہی اور غربت سے بھاگ کر جرمنی چلے گئے تھے۔ انہوں نے شروع دنوں میں اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کیے اور پھر 2019 میں انہوں نے اپنی توجہ کیتھڈرل کا ماڈل تخلیق کرنے پر مرکوز کر دی۔ انہیں توقع ہے کہ وہ جرمنی میں کندہ کاری کے ایک فن کار کے طور پر اپنا مستقبل بنا سکیں گے۔
خضر نے اپنا ماڈل تیار کرنے کے لیے سفیدے جیسے ایک درخت ’بیچ ‘ کی لکڑی اور پچاس سال پرانے وہ اوزار استعمال کیے جو وہ شام سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ان سے قبل یہ اوزار خضر کے والد استعمال کرتے تھے۔ نصف صدی پرانے اوزاروں سے تخلیق پانے والا شاہکار ان کے قد سے بھی زیادہ یعنی ساڑھ چھ فٹ اونچا اور پانچ فٹ کے لگ بھگ چوڑا ہے۔
انہوں نےکولون کی جس قدیم تاریخی عمارت کا ننھا ماڈل تیار کیا ہے وہ 500 فٹ بلند ہے اور اس کی تعمیر میں 600 سال سے زیادہ عرصہ لگا۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس کی تعمیر 1248 میں شروع ہوئی اور یہ عظیم کیتھڈرل 1880 میں مکمل ہوا۔
یورپ کا ایک اور تاریخی کیتھڈرل نوٹرڈیم پیرس میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر 1163 میں شروع ہوئی تھی جو مختلف مراحل میں 1884 میں اپنی تکمیل کو پہنچی۔ بعد ازاں 1991 سے 2000 کے دوران اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ 2109 میں اس کی مرمت و تزئین کا کام جاری تھا کہ 15 اپریل کو اچانک اس کے اندرونی حصے میں آگ بھڑک اٹھی جس سے اس تاریخی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ ان دنوں وہاں مرمت کا کام جاری ہے۔ نوٹرڈیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
کولون کا کیتھڈرل یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔ اس میں تین بادشاہوں کے مقبرے بھی ہیں۔ یہ کیتھڈرل جرمنی کے ان اہم ترین مقامات میں شامل ہے جو سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔اس کا شمار شمالی یورپ کی ان اہم ترین عبادت گاہوں میں کیا جاتا ہے جہاں ہر سال زائرین کی ایک بڑی تعداد حاضری دینے کے لیے جاتی ہے۔
ان دنوں خضر کے اس شاہکار کی نمائش کیتھڈرل کے ڈوم فورم وزیٹر سینٹر میں جاری ہے۔ خضر اس کے بعد جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی اپنے ماڈل کی نمائش کرنا چاہتے ہیں۔
خضر کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ کیتھڈرل تمام لوگوں کا گھر ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)