|
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے نویں ایڈیشن کا آغاز یکم جون سے امریکہ میں ہو رہا ہے جہاں میزبان ٹیم ٹیکساس میں اپنے ہمسایہ ملک کینیڈا کے مدِمقابل ہو گی۔
اس ورلڈ کپ ایونٹ میں ریکارڈ 20 ٹیمیں مدِمقابل ہوں گی جب کہ مجموعی طور پر 55 مقابلے کھیلے جائیں گے۔
سن 2007 سے 2012 کے درمیان ہونے والے پہلے چار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں 12، 12 ٹیموں نے شرکت کی تھی جب کہ 2014 سے 2022 کے درمیان کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مقابلوں میں ٹیموں کی تعداد 16 تھی۔
ان 20 ٹیموں میں سے کون سی ٹیم چیمپئن بنے گی، اس کا فیصلہ 29 جون کو بارباڈوس میں ہونے والے فائنل کے بعد ہو گا جس میں ایونٹ کی دو بہترین ٹیمیں حصہ لیں گی۔
میچز نو الگ الگ وینیوز پر کھیلے جائیں گے جس میں سے 16 میچز امریکی سرزمین پر ہوں گے جب کہ 39 میچز ویسٹ انڈیز میں کھیلے جائیں گے۔
ویسٹ انڈیز اس سے قبل 2010 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کر چکا ہے جب کہ امریکہ پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا۔
کون سی ٹیم کس گروپ میں شامل ہو گی؟
پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2007 میں جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا تھا جب کہ 2022 میں ہونے والے ایونٹ کی میزبانی آسٹریلیا نے کی تھی۔
صرف دو ٹیمیں ایسی ہیں جنہوں نے ایک سے زائد مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا ہے ویسٹ انڈیز نے 2012 اور 2016 جب کہ انگلینڈ نے 2010 اور 2022 میں ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
بھارت نے 2007 میں ہونے والا پہلا ورلڈ کپ جیتا تھا جب کہ پاکستان نے 2009، سری لنکا نے 2014 اور آسٹریلیا نے 2021 میں ٹرافی اپنے نام کی تھی۔
یکم جون سے شروع ہونے والے میگا ایونٹ میں ٹیموں کی تعداد زیادہ ہے اسی لیے ایونت کے فارمیٹ میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ نئے فارمیٹ کے مطابق 20 ٹیموں کو چار گروپس میں رکھا گیا ہے۔
ہر گروپ میں پانچ پانچ ٹیمیں موجود ہیں جو آپس میں چار چار میچز کھلیں گی۔ گروپ اسٹیج کے اختتام پر جن ٹیموں کے پوائنٹس زیادہ ہوں گے۔ وہ اگلے مرحلے یعنی سپر ایٹ میں کوالی فائی کر جائیں گی۔
سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے والی آٹھ ٹیموں کو بھی دو گروپس میں رکھا جائے گا۔ ہر ٹیم اپنے گروپ میں تین تین میچز کھیلے گی جس کے بعد دونوں گروپس میں پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیمیں سیمی فائنل میں جگہ بنائیں گی۔
ایونٹ کا فائنل 29 جون کو بارباڈوس میں کھیلا جائے گا جس میں دونوں سیمی فائنل جیتنے والی ٹیمیں ٹرافی کے لیے مدمقابل ہوں گی۔
جہاں تک گروپس کی بات ہے تو گروپ اے میں پاکستان، بھارت، آئرلینڈ، امریکہ اور کینیڈا کو رکھا گیا ہے جب کہ گروپ بی میں دفاعی چیمپئن انگلینڈ ، آسٹریلیا، نمیبیا، اسکاٹ لینڈ اوراومان کی ٹیمیں ہیں۔
گروپ سی میں نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، افغانستان، پاپوا نیوگنی اور یوگینڈا کو جگہ ملی ہے جب کہ گروپ ڈی میں سری لنکا، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، نیدرلینڈز اور نیپال کو رکھا گیا ہے۔
قوانین کے مطابق ایونٹ کے دوران ہونے والے میچ برابر ہونے کی صورت میں فیصلہ سپر اوور کے ذریعے ہو گا۔ اگر سپر اوور کے بعد بھی میچ برابر رہا تو مزید سپر اوورز کے ذریعے میچ کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ایونٹ میں شریک ٹیموں میں سے کس کا پلڑا بھاری ہو گا؟
ایونٹ میں جہاں 11 ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی ٹیمیں شامل ہیں وہیں نو ٹیمیں ایسوسی ایٹ ممالک کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
ماہرین کی رائے میں گروپ اے سے پاکستان اور بھارت مضبوط امیدوار ہیں کیوں کہ ان کے پاس بیٹنگ اور بالنگ دونوں میں ورلڈ کلاس کھلاڑی ہیں۔
گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم نے فائنل میں جگہ بنائی تھی جب کہ بھارتی ٹیم، انڈین پریمیئر لیگ کی وجہ سے بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
اسی گروپ میں امریکی ٹیم بھی موجود ہے جس نے گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش کو ٹی توئنٹی سیریز میں شکست دے کر مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔
کپتان بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم میں نئے اور تجربہ کار دونوں کھلاڑی شامل ہیں۔ اعظم خان اور صائم ایوب کریبئین پریمئر لیگ میں کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں جب کہ بعض ماہرین کے مطابق محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی سے ٹیم مضبوط ہوئی ہے۔
بھارتی ٹیم بھی روہت شرما کی قیادت میں میگا ایونٹ میں شرکت کرے گی جو ایونٹ کا پہلا میچ کھیل کر بنگلہ دیش کے شکیب الحسن کے ساتھ مسلسل نواں ورلڈ کپ کھیلنے والے کھلاڑی بن جائیں گے۔
ان کی ٹیم آئی پی ایل کی وجہ سے پریکٹس میں تو ہے۔ لیکن 2007 سے انہیں دوسرے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تلاش ہے۔ 2014 میں بھارت نے فائنل تک رسائی تو حاصل کی تھی لیکن سری لنکا کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی تھی۔
گروپ بی سے دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور آسٹریلیا بظاہر فیورٹ نظر آ رہے ہیں لیکن نمیبیا، اومان اور اسکاٹ لینڈ کے پاس ایسے کھلاڑی ہیں جو اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شریک میزبان ویسٹ انڈیز کے پاس ہوم کراؤڈ اور ہوم گراؤنڈ کا جو ایڈوانٹیج ہو گا اس سے ان کے مخالفین بھی خائف ہوں گے۔ تاہم جیسن ہولڈر کی انجری سے ان کا بالنگ اٹیک متاثر ہوسکتا ہے۔
اب تک نیوزی لینڈ نے کوئی ورلڈ کپ نہیں جیتا، لیکن اس بار ان کے پاس گروپ سی کی ٹاپ ٹیم بننے کا بھرپور موقع ہے۔ کین ولیمسن کی قیادت میں ان کے پاس ورلڈ کلاس بالرز بھی ہیں اور بلے باز بھی جو کسی بھی حریف کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔
افغانستان کی گروپ سی میں موجودگی اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ اگر راشد خان کی جارحانہ کپتانی میں انہوں نے ایک بھی بڑی ٹیم کو ہرادیا تو پوائنٹس ٹیبل کی صورتِ حال دلچسپ ہو سکتی ہے۔
ویسے تو گروپ ڈی میں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ موجود نیدرلینڈز اور بنگلہ دیش اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈچ ٹیم نے گزشتہ ورلڈ کپ کے دوران جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دی تھی اور اس سال اچھی کارکردگی انہیں سپر ایٹ میں بھی پہنچا سکتی ہے۔