پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی ایک متنازع پوسٹ کے بعد مبینہ طور پر طالبان حکومت نے افغانستان میں زلزلہ زدگان کے لیے پاکستان کی امداد لینے سے انکار کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر طالبان عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ امداد قبول کرنے سے انکار کی وجہ بنی۔
یہ تنازع افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں آنے والے 6.3 شدت کے زلزلے کے بعد شروع ہوا۔ اسلام آباد نے فوراً اعلان کیا کہ وہ اس آفت سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 5000 موسمِ سرما کے خیمے، 15000 کمبل، کھانے پینے کی اشیا اور طبی سامان پر مبنی ایک ٹرانسپورٹ طیارہ روانہ کرے گا۔
اس سلسلے میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے سامان کی تیاری کی اور اس کی تفصیلات اپنی آفیشل ویب سائٹ پر شیئر کیں۔
اس کے کچھ گھنٹوں بعد انوار الحق کاکڑ نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ یہ امداد طالبان حکومت کی درخواست پر روانہ کی جا رہی ہے۔ حالانکہ کابل نے اب تک کسی بیرونِ ملک سے امداد بھیجنے کے لیے باضابطہ طور پر نہیں کہا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی جانب سے افغانستان بھجوائے جانے والے امدادی سامان کی معلومات بھی غلط شیئر کی گئیں۔
البتہ اس کے بعد سے پاکستانی طیارے نے اڑان نہیں بھری اور نہ ہی کسی نے سرکاری سطح پر اس تاخیر کی وجہ بیان کی۔
طالبان عہدے دار نے امداد قبول کرنے سے انکار پر واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے ایک تحریری بیان میں کہا کہ ان کی طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی اور اس سے ان کی حکومت کا مذاق اڑایا گیا۔
انہوں نے انوار الحق کاکڑ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے اسے 'غیر ذمہ دارانہ' قرار دیا اور پاکستانی رہنما کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان کے بارے میں بیانات جاری کرتے ہوئے محتاط رہیں۔
اس معاملے سے جڑے ایک پاکستانی عہدے دار سے جب طالبان کے دعوؤں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیوں اسلام آباد امدادی سامان افغانستان نہیں بھیج سکا؟ تو عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابل نے اس بارے میں ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے امداد کے لیے باضابطہ طور پر درخواست کی تھی اور ہم سے کہا تھا کہ امداد کب بھیجنی ہے اس بارے میں وہ ہمیں آگاہ کریں گے۔
اس سے قبل پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں اس تنازع پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔
ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے جو زلزلے کے باعث مشکل صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، تاہم 2021 میں طالبان حکومت آنے کے بعد تعلقات میں مزید سردمہری دیکھی جا رہی ہے۔
اسلام آباد کا الزام ہے کہ پاکستان پر حملے کرنے والے عسکریت پسند افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہیں اور وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی پاکستانی حکومت کے اس اعلان کے بعد بھی دیکھی گئی ہے جس میں اسلام آباد نے ملک میں لاکھوں افغان باشندوں سمیت غیر قانونی طور پر مقیم تمام تارکینِ وطن کو ملک سے نکلنے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈلائن دی ہے۔
طالبان رہنماؤں نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے اور فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا کیا ہے۔ طالبان نے خبردار کیا ہے کہ اس سے دو طرفہ تعلقات کو 'شدید نقصان' پہنچ سکتا ہے۔