افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِاعظم نے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے نافذ قوانین کا دفاع کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ان کی حکومت خداکے ''مقرر کردہ ''انسانی حقوق پر عمل کر رہی ہے اور وہ ان میں ترمیم کی جرأت نہیں کر سکتی۔
یہ بیان اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے منظور کی گئی اس قرارداد کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جس میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ افغان خواتین کے بنیادی حقوق کو کم کرنے والے طرز عمل کو واپس لے جن کے سبب وہ سماج میں'' نظر ''نہیں آتیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہفتے کو عید کے حوالے سے منعقدہ اجتماع سے خطاب میں طالبان حکومت کے وزیرِاعظم حسن اخوند کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ'' امارات اسلامیہ افغانستان کی حکومت مردوں اور عورتوں کے انسانی حقوق کی پرواہ نہیں کرتی ہے۔''
اپنے خطاب میں انہوں نے بظاہر طالبان کے دور حکومت میں خواتین کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک پر بڑھتی تنقید کا حوالہ دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو غیر مسلموں نے اپنے لیے وضع کی ہیں اور وہ ان کے پا بند ہیں۔دوسری قسم کے انسانی حقوق وہ ہیں جو ان کے بقول اللہ نے انسانیت کے لیے مقرر کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حسن اخوندکا کہنا تھا کہ ''اگر ان کا مقصد ملک میں اسلامی نظام رائج کرنا ہے تو ان کی حکومت کیسے ان (حقوق کو) نافذ نہیں کر سکتی۔ وہ اسلامی نظام کا ایک حصہ بھی ہیں اور ( اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے بیان کیا گیا) بہترین راستہ بھی۔''
خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں امریکہ اور دیگر غیرملکی افواج نے 20سال کی طویل جنگ کے بعد افغانستان سےاپنا انخلا مکمل کیا تھا جس کے ساتھ ہی طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔
اس کے بعد سے افغانستان میں بننے والی صرف مردوں کی حکومت نے خواتین کے کپڑوں اور عوامی و تعلیمی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دی ہیں جو طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کیے گئے ان وعدوں کی خلاف ورزی ہے جن میں انہوں نے تمام افغان شہریوں کے حقوق کے احترام کی بات کی تھی۔
طالبان حکومت کی طرف سے خواتین کو عوامی مقامات پر اپنا چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بصورت دیگر ان کے خاندان کے مرد رکن کو جیل کی سزا دیے جانے کا حکم ہے۔ ملک میں زیادہ تر نوعمر لڑکیوں کو سیکینڈری اسکول کی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے سبب افغانستان دنیا میں واحد ملک بن گیا ہے جہاں لڑکیوں کو سیکینڈری اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس سے قبل جمعے کو اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق قرار داد منظور کی تھی۔
یہ قرار داد یورپی یونین نے پیش کی تھی اور تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے 50 ممالک نے اس میں معاونت کی تھی۔
اقوام متحدہ میں یورپی یونین کی سربراہ سفیر لوٹے نوڈسن کا کہنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان کے اقدامات اور ان کے حقوق کی پامالی انتہائی تشویش ناک ہے۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کونسل کے فیصلے قانونی طور پر نافذ نہیں ہوتے۔ تاہم ان کا سیاسی وزن ہوتا ہے اور حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی سرکاری تحقیقات کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے طالبان پر منظم جبر اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے خارج کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اس خبر میں جنیوا سے لیزا شیلائن نے معاونت کی۔