افغانستان میں طالبان نے اپنے تازہ بیان میں خواتین کے لیے قریبی مرد رشتہ داروں کے بغیر طویل سفر کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔
اتوار کو طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق خواتین کے مختصر سفر پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
طالبان کی قائم کردہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت کا کام مذہبی قوانین نافذ کرنا ہے۔ طالبان نے 1996 میں اپنی حکومت بنانے کے بعد بھی یہ وزارت قائم کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان محمد سعید عاکف مہاجر نے بتایا کہ شریعت کی رو سے 70 کلو میٹر سے زائد کا سفر کرنے کے لیے عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔
طالبان کا خواتین کے سفر پر پابندی سے متعلق یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انہیں اپنی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
اس سے قبل امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق الیکٹرونک میڈیا پر آنے والی تمام خواتین کے لیے حجاب لازمی قرار دیا گیا تھا۔
رواں برس 15 اگست کو کابل کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں سفر کے دوران ٹیکسی یا پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں میں خواتین اور مردوں کے ساتھ بیٹھنے پر بھی پابندی ہے۔
افغانستان میں عام طور پر سفر کے لیے ٹیکسیوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس پابندی کے بعد سے وہاں خواتین زیادہ تر اگلی نشست پر ہی بیٹھتی ہیں۔
طالبان نے رواں سال اگست میں کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد گزشتہ حکومت میں قائم ہونے والی خواتین کی وزارت کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں تبدیل کر دیا تھا۔ جب کہ ہفتے کو الیکشن کمیشن اور وزارتِ امن اور وزارتِ پارلیمانی امور کو بھی تحلیل کر دیا گیا ہے۔
’پابندیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘
مبصرین کے نزدیک طالبان کی حکومت کے خواتین اور انسانی حقوق سے متعلق اقدامات قابلِ تشویش ہیں۔
افغانستان میں لڑکوں کے اسکول تو کھل چکے ہیں لیکن طالبان کے کابل میں داخل ہونے کو 100 دن سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی پورے ملک میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے اب تک نہیں کھل سکے ہیں۔
راحیلہ تلاش انصاری افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین سے متعلق طالبان کی گزشتہ چار ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انہیں خواتین پر پابندیوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین نہ تو طالبان کی کابینہ میں نظر آتی ہیں اور نہ ٹیکسیوں میں۔ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں خواتین کی نمایاں کمی سے طالبان کی سوچ کی صحیح عکاسی ہوتی ہے کہ وہ درحقیقت خواتین کا کتنا احترام کرتے ہیں۔
'سوچ نہیں بدلی'
راحیلہ تلاش انصاری کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی سوچ میں خواتین کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کے بقول افغان خواتین کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے اور وہ نا امید ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح افغانستان کی ترقی کا راز بھی جمہوریت میں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ افغانستان میں جمہوریت کا باب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے جب سے افغانستان میں اقتدار سنبھالا ہے، اس کے بعد سے کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ عالمی برادری طالبان سے خواتین کے حقوق، وسیع البنیاد حکومت اور آزادیٔ اظہار کو یقینی بنانے کے مطالبات کر رہی ہے۔
کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن سکینہ کوچی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان وقتاً فوقتاً اس قسم کی گائیڈ لائنز جاری کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ دو اہم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول طالبان کی پہلی خواہش یہ ہے کہ وہ تمام افغان خواتین کو اپنے تابع کریں جب کہ دوسری جانب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔
’ہجرت کے سوا چارہ نہیں رہے گا‘
سکینہ کوچی کے بقول یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات تباہی کے دہانے پر ہیں۔ بے روزگاری تقریباً 100 فی صد ہو چکی ہے۔ امن و امان کی صورتِ حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور گزشتہ پانچ ماہ سے خواتین تعلیم سے محروم ہیں۔ لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے طالبان خواتین کے لیے قوانین بنانے میں مصروف ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان 40 سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ یہاں جنگ کے باعث تقریباً تمام ہی گھر اجڑ چکے ہیں۔ اس طرز کے قوانین ترقی پسند خواتین کو یا تو خودکشی کرنے پر مجبور کریں گے یا ان کے پاس اپنا گھر بار اور ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
سکینہ کوچی کا مزید کہنا تھا کہ افغان خواتین چاہتی ہیں کہ طالبان ان سے متعلق بے مقصد قوانین پر توانائی ضائع کرنے کے بجائے خواتین اور ملک کی ترقی کے لیے عملی اقدامات کریں۔ افغان عوام بلکہ عالمی برادری بھی ان سے یہی تقاضا کر رہی ہے۔