افغانستان میں حکمران طالبان نے مغربی ممالک کی طرف سے عائد ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت والی سابق افغان حکومت میں شامل سیکیورٹی عہدیداروں کو ہدف بنا کر قتل کر رہے ہیں۔ اتوار کو ایک بیان میں طالبان نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ ملک بھر میں عام معافی پر کاربند ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ کوئی بھی طالب اگر عام معافی کے حکم نامے کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو اس کے خلاف قانونی کاروائی ہو گی ‘‘۔ انہوں نے اس ٹویٹ میں مزید کہا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں گی، لیکن غیر مصدقہ افواہوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔
ہفتے کے روز امریکہ نے اپنے مغربی اور اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ایسے خبروں کی مذمت کی تھی جن میں دعوی کیا گیا ہے کہ طالبان نے اگست کے وسط میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سو سے زیادہ ایسے افغان سیکیورٹی اہل کاروں کو ہلاک کیا یا اپنی حراست میں رکھا ہے جنہوں نے گزشتہ حکومت کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا، برطانیہ، جاپان اور دیگر ممالک کی جانب سے کہا گیا کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے سابق اراکین کی ماوارئے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتے ہیں جنہیں انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ کی شکل دی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ طالبان فورسز کے مبینہ اقدامات انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں اور طالبان کی طرف سے اعلان کردہ عام معافی کے منافی ہیں۔ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان حکمران عام معافی پر پورے ملک اور تمام طبقات کے لیے نافذ کریں۔
ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ ہفتے رپورٹ یہ کہتے ہوئے جاری کی تھی کہ اس نے افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز، سیکیورٹی کے دیگر اداروں پولیس اور انٹیلی جنس کے 47 سابق عہدیداروں کے ماوارئے عدالت ہلاکتوں کے ریکارڈ کو دستاویزی شکل دی ہے جنہوں نے ہتھیار ڈال رکھے تھے یا پھر ان کو طالبان فورسز گرفتار کرنے کے لیے گئی تھیں۔ یہ واقعات اگست سے اکتوبر کے درمیان کے عرصے میں رونما ہوئے۔
SEE ALSO: سابق افغان فوجیوں کے 'ماورائے عدالت' قتل کی اطلاعات، امریکہ اور مغربی ممالک طالبان پر برہمامریکہ اور اتحادی ممالک کی طرف سے جاری کردہ بیان میں ان ہلاکتوں کی فوری اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ طالبان کو ان کے اقدامات کی روشنی میں دیکھیں گے۔
عسکریت پسند گروپ پر دباؤ ہے کہ وہ خواتین سمیت تمام افغان شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے وعدے پر عمل کریں گے۔
بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور مغربی ممالک نے طالبان حکومت کے اربوں ڈالر کے ترقیاتی امدادی پروگرام اور افغان سینٹرل بینک کے اثاثوں کو منجمد کر رکھا ہے۔ زیادہ تر اثاثے امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک میں انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق خدشات پر منجمد ہیں۔
مالیاتی پابندیوں نے افغانستان کے اندر اقتصادی بحران کے امکانات کو اجاگر کیا ہے جہاں دسیوں لاکھوں لوگ پہلے ہی برسوں پر محیط جنگ، بڑے پیمانے پر غربت اور ملک بھر میں جاری قحط سالی کے سبب ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کے منتظر ہیں۔