امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے علاوہ بعض مغربی ممالک نے افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں افغان نیشنل آرمی کے سابق اہلکاروں کی 'ماورائے عدالت' ہلاکتوں کی رپورٹس کی مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادرے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا، برطانیہ، جاپان اور دیگر ممالک کی طرف سے ایک مشترکہ بیان میں، جو امریکہ کے محکمہ خارجہ نے جاری کیا ہے، کہا گیا ہے کہ ہم أفغان سیکیورٹی فورسز کے سابق اراکین کی ماورائے عدالت ہلاکتوں، جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتے ہیں جن کی اطلاع ہیومن رائٹس واچ اور دیگر اداروں نے دی ہے۔
مختلف ممالک کے گروپ نے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے کہ ہم اس بات کو باور کرا رہے ہیں کہ مبینہ اقدامات انساںی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں اور طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے متضاد ہیں۔ بیان میں افغانستان کے نئے حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ عام معافی کے ملک کے تمام حصوں اور تمام طبقات تک اطلاق کو یقینی بنائیں۔
گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس واچ' نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں افغان نیشنل آرمی، پولیس یا انٹیلی جنس کے 47 ایسے سابق اراکین کے ماورائے عدالت قتل یا جبری گمشدگیوں کے بارے میں بتایا گیا تھا جن کو طالبان فورسز نے اگست کے وسط سے اکتوبر کے درمیان گرفتار کیا تھا حالانکہ انہوں نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔
کینیڈا، نیوزی لینڈ، رومانیہ، یوکرین اور متعدد دیگر مغربی ممالک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کیسز کے بارے میں فی الفور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کو جوابدہ ٹھیرایا جانا چاہیے۔ اور ان اقدامت کو واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہیے تاکہ مزید ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں سے بچا جا سکے۔
طالبان نے اگست کے وسط میں اس وقت افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا جب امریکہ کی حمایت والی حکومت اور افغانستان کی فوج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
امریکہ نے اس ہفتے کے اوائل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے اور سخت گیر جنگجو گروپ پر زور دیا تھا کہ وہ ملک بھر میں خواتین کو تعلیم تک رسائی دیں۔
امریکہ کے ایک ترجمان نے بتایا تھا کہ واشنگٹن نے افغانستان کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔