افغانستان میں طالبان حکام نے ذرائع ابلاغ اور آزادی اظہار پر وسیع نوعیت کی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جو اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے کے زمرے میں آتی ہیں، طالبان کے اس اقدام کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، ستمبر کے آخری دنوں میں کابل میں صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران طالبان کی وزرات اطلاعات اور ثقافت نے اخباری صنعت کے متعلق ضابطوں پر مشتمل قوانین کی تفصیل جاری کی،جس کی شقیں اتنی وسیع اور مبہم ہیں کہ ان کی موجودگی میں طالبان کے خلاف تنقید پر سخت ممانعت لاگو ہو چکی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ برائے ایشیا، پیٹریشیا گروسمین نے بتایا ہے کہ ''طالبان کے وعدوں کے باوجود کہ ایسے میڈیا کو کام کرنے کی اجازت ہو گی جو اسلامی اقدار کی پاسداری کریں گے، نئے قوانین ملک میں ابلاغ عامہ کی آزادی پر مکمل قدغن عائد کرتے ہیں''۔
بقول ان کے، ''طالبان کے نافذ کردہ نئے ضابطے اس قدر گھٹن کا باعث ہیں کہ جیل جانے سے بچنے کے لیے صحافی کسی بات کو ضبط تحریر میں لانے سے پہلے 'خود احتسابی' کے عمل سے گزرنے کی پابندی کرنے پر مجبور ہیں''۔
ہیومن رائٹس واچ کو ان نئے ضابطوں کی نقل موصول ہوئی ہے۔ ان میں میڈیا سے کہا گیا ہے کہ ''اسلام مخالف'' کسی بات کو شائع یا نشر کرنے کی ممانعت ہے، جس سے مبینہ طور پر ''قومی شخصیات کی بے عزتی ہوتی ہو'' یا پھر جس میں ''خبروں کے مواد کو بگاڑ کر پیش کیا جائے''۔
نئے قوانین میں واضح کیا گیا ہے کہ صحافیوں کے لیے لازم ہے کہ ان کی ''رپورٹنگ متوازن ہو''، اور وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ ان امور پر نہ لکھا جائے جن کی تصدیق عہدے داروں سے نہ کی گئی ہو یا پھر ایسے معاملات جن سے رائے عامہ میں منفی سوچ پیدا ہونے کا خدشہ لاحق ہو۔
ان میں کہا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر لازم ہے کہ کوئی رپورٹ شائع کرنے سے پہلے ضابطوں پر عمل درآمد پر مامور سرکاری ادارے سے رابطہ کیا جائے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان سیکیورٹی فورسز نے من مانے طور پر صحافیوں کو حراست میں لیا ہے، جب کہ متعدد کو مارا پیٹا گیا ہے۔
صحافیوں کے نمائندہ گروپ نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے کم از کم 32 صحافیوں کو حراست میں لیا، جن میں سے زیادہ تر کو ان کی رپورٹنگ پر تنبیہ دینے کے بعد رہا کیا گیا؛ لیکن کچھ صحافیوں کو مارا پیٹا گیا۔ ایک صحافی جنھیں بری طرح زد و کوب کیا گیا تھا، انتباہ کیا کہ اگر انھوں نے کسی کو مارپیٹ کے بارے میں بتایا تو ان سے مزید برا سلوک ہو گا۔ یکم اکتوبر تک کم از کم ایک صحافی ابھی تک حراست میں ہے،جن کے اہل خانہ کو ان تک رسائی نہیں دی گئی۔
ہرات شہر میں چھ ستمبر کو طالبان نے ایک فری لانس فوٹو جرنلسٹ، مرتضیٰ صمدی کو اس وقت حراست میں لیا جب وہ ایک احتجاج کی کوریج کر رہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے اہل خانہ نے بتایا ہے کہ ان کی گرفتاری سے متعلق سماعت کے بعد انھوں نے گورنر ہاؤس اور پولیس اسٹیشن پر اہل کاروں سے معلوم کیا کہ انھیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ انھیں بتایا گیا کہ انھیں انٹیلی جنس کے محکمہ کی جانب لے جایا جا رہا ہے، چونکہ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے احتجاج کا انتظام کیا تھا، اور ان پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کے ''غیر ملکیوں کے ساتھ روابط ہیں''۔ انھیں 30 ستمبر تک زیر حراست رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔
ان گرفتاریوں کے علاوہ طالبان انٹیلی جنس دفتر نے صحافیوں کو پیش ہونے کا حکم نامہ جاری کیا اور انھیں متنبہ کیا گیا کہ ان کی رپورٹنگ ''پروپیگنڈا کے زمرے میں آتی ہے، جس سے فوری طور پر بند ہونا چاہیے''۔
ایک اخباری تنظیم نے، جس کی سربراہ ایک خاتون ہیں، انہوں نےبتایا کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد انھوں نے آن لائن مواد شائع کیا، لیکن جب نئے ضابطوں کا اعلان ہوا تو انھوں نے کام بند کر دیا۔ بقول ان کے، ''طالبان کے آتے ہی آزادی صحافت قصہ پارینہ بن گئی۔ اب افغانستان میں ہمارے پاس اخبار کی آزادی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی''۔