تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے سیکیورٹی اداروں کی تحویل سے مبینہ فرار کے بعد سیاسی، سماجی اور جمہوریت پسند حلقے دہشت گردی کے واقعات بڑھنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ جس میں وہ پاکستان فوج کی حراست سے فرار ہونے کا دعوی کر رہے ہیں۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق سیاسی وسماجی حلقوں بالخصوص پشاور کے آرمی پبلک سکول کے متاثرین نے قاری احسان اللہ احسان کے سیکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہونے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں حملے سے 133 بچوں سمیت 148 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ترجمان احسان اللہ احسان کے ذریعے قبول کی تھی۔
آرمی پبلک اسکول کے لواحقین کے وکیل فضل خان ایڈوکیٹ نے احسان اللہ احسان اور ریاستی اداروں کے درمیان طے پانے والے مبینہ معاہدے کے خلاف عدالت سے رُجوع کیا تھا۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر سزا دی جائے۔
پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ احسان اللہ احسان کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرے۔
فضل خان ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں قاری احسان کے مبینہ فرار کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اُنہیں معاہدے کے تحت فرار ہونے کا موقع دیا گیا۔ جو ان کے بقول نہ صرف عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے بلکہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار کے بعد اس خطے میں تشدد اور دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
آرمی پبلک اسکول حملے میں مرنے والے ایک طالب علم اسفند خان کی والدہ شایانہ اجون خان نے بھی احسان اللہ احسان کے فرار ہونے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار کے بعد یوں دکھائی دیتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوگا جو کسی بھی طور پر ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
احسان اللہ احسان کے فوج کی تحویل سے فرار کا انکشاف گزشتہ ماہ بھارتی اخبار 'سنڈے گارڈین' نے کیا تھا۔ لیکن پاکستان کی فوج نے اس خبر کی نہ تو تصدیق کی تھی اور نہ ہی تردید۔
تاہم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے احسان اللہ احسان کے مبینہ آڈیو پیغام کے بعد قیاس آرائیاں مزید زور پکڑ رہی ہیں۔
احسان اللہ احسان نے آڈیو پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی حراست سے 11 جنوری کو فرار ہو گئے تھے۔ ایسا کیسے ممکن ہوا اس حوالے سے احسان اللہ احسان نے کچھ نہیں بتایا۔
دو منٹ اور دو سیکنڈ کی اس آڈیو کا آغاز تلاوت سے ہوتا ہے اور وہ اپنا نام بتا کر کہتے ہیں کہ ان کا تعلق تحریک طالبان اور جماعت الاحرار سے تھا۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کیا تھا۔ لیکن، بقول ان کے، "پاکستان کے مکار خفیہ اداروں نے معاہدے سے رُوح گردانی کرتے ہوئے مجھے میرے بچوں سمیت قید کر دیا تھا۔ میں نے تین سال تک معاہدے کی پاسداری کی اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 11 جنوری 2020 کو میں فوج کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔"
انہوں نے کہا کہ "ہمارے ساتھ کیا معاہدہ ہوا تھا۔ کس کی اجازت سے ہوا۔ نکات کیا تھے۔ کس شخصیت نے ہمیں تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ پاکستان میں کس حال میں رکھا گیا اور ہم سے کیا کہلوایا گیا۔ پاکستانی ادارے ہم سے مزید کیا کرانا چاہتے تھے۔ ان کے منصوبے کیا ہیں۔ اور پاکستان فوج کے وہ منصوبے جن کا میں چشم دید گواہ ہوں، ان سے پردہ اٹھانا اب ضروری ہو گیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "میں جلد ان تمام تفصیلات سے عوام کو آگاہ کروں گا۔ ساتھ ہی اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بھی آگاہ کروں گا۔"
احسان اللہ احسان یہ تفصیلات کب فراہم کریں گے اس حوالے سے انہوں نے وقت کا کوئی تعین نہیں کیا اور جلد آگاہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آواز احسان اللہ احسان کی لگتی ہے، سلیم صافی
اس آڈیو ٹیپ کے حوالے سے احسان اللہ احسان کا انٹرویو کرنے والے سینئر صحافی اور جیونیوز کے اینکر سلیم صافی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "کامن سینس کی بنیاد پر بظاہر یہ آواز احسان اللہ احسان کی ہی لگ رہی ہے۔ لیکن، تکنیکی بنیادوں پر کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔"
سلیم صافی نے کہا کہ جب میں نے ان کا انٹرویو کیا تو آئی ایس پی آر والے مجھے ساتھ لے گئے تھے اور میں نے انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں زیادہ تر باتیں وہی تھیں جو احسان اللہ احسان نے بیان کی صورت میں جاری کی تھیں۔ پہلے یہ انٹرویو روک دیا گیا بعد ازاں عدالت کی مداخلت پر یہ انٹرویو نشر ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’’احسان اللہ احسان فرار ہوا ہے یا نہیں اس بات کی تصدیق وہی کر سکتے ہیں جن کی وہ تحویل میں تھا۔ اس بارے میں بھارتی اخبار میں خبر بھی آئی اور ہم نے جب فوجی حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے ’نو کمنٹس‘ کا کہا۔ اگر وہ انہی کی تحویل میں ہوتا تو کہہ دیتے کہ خبر جھوٹی ہے۔ لیکن اس کی تردید نہیں کی گئی اور اب یہ آڈیو بیان سامنے آیا ہے جو بادی النظر میں احسان اللہ احسان کا ہی ہے۔"
احسان اللہ احسان کون ہے؟
احسان اللہ احسان پاکستان کے خیبر پختونخوا کے علاقے مہمند ایجنسی کے رہنے والے ہیں۔ اپریل 2017 میں پاکستان فوج کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ ان کا ایک ویڈیو بیان ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق، ان کا اصلی نام لیاقت علی ہے۔
اپنی ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں 2008 میں شمولیت اختیار کی۔ احسان اللہ احسان نے اپنی اعترافی ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے فنڈ مہیا کرتی ہے۔
احسان اللہ احسان سال 2013 تک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان رہے تھے۔ احسان تحریک طالبان پاکستان کے بعض سابق کمانڈرز کے ساتھ اس گروپ سے الگ ہو گئے اور انہوں نے جماعت الاحرار کے نام سے اپنا نیا دھڑا بنا لیا تھا۔
احسان اللہ احسان کو اس نئے دھڑے کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے 70 سے 80 فی صد کمانڈر اور جنگجو جماعت الاحرار میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں سب سے معروف عمر خالد خراسانی تھا۔
احسان اللہ احسان کے خلاف عدالتی کارروائی
احسان اللہ احسان اگرچہ تین سال تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رہے۔ لیکن، ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی یا مقدمہ قائم کرنے سے متعلق کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی تھی۔
احسان اللہ احسان قبائلی علاقوں میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں بھی نامزد ملزم تھے کیونکہ اُنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ میں مئی 2017 میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں فضل خان ایڈوکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ احسان اللہ احسان نے آرمی پبلک سکول پر حملے سمیت متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس لیے اسے سخت سزا دی جائے۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ احسان اللہ احسان کو رہا نہ کیا جائے اور مقدمہ فوجی عدالت میں سنا جائے۔ فضل خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جس طرح احسان اللہ احسان کو میڈیا پر پیش کیا گیا اس سے انہیں ایسا لگا کہ شاید حکومت احسان اللہ احسان کو رہا کرنے کا سوچ رہی ہے۔
SEE ALSO: تحریک طالبان اب بھی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہے: رپورٹفضل خان ایڈووکیٹ کے بیٹے عمر خان آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے اور 16 دسمبر 2014 کو شدت پسندوں کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
فضل خان کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کو ایک مفکر کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا جس پر انہیں تشویش ہوئی۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ احسان اللہ احسان کو رہا نہ کیا جائے بلکہ پابند سلاسل رکھا جائے۔
یہ درخواست تقریباً آٹھ ماہ تک زیر سماعت رہی جس کے بعد 13دسمبر 2017 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں قائم بینچ نے حکومت کو احسان اللہ احسان کو رہا نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف تحقیقات مکمل کی جائیں۔
اس کیس میں حکومت کی طرف سے ایک سطری جواب دیا گیا تھا کہ "احسان اللہ احسان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔"