افغانستان کی طالبان حکومت نے پشاور خودکش حملے میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ کسی پر الزام تراشی سے قبل واقعے کی مکمل تحقیقات کر لے۔
طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بدھ کو کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام کو اپنے سیکیورٹی چیلنجز کا خود حل تلاش کرنا چاہیے اور دو مسلم ملکوں کے درمیان نفرت کے بیج بونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
پشاور کے حساس علاقے پولیس لائنز کی ایک مسجد میں پیر کو خودکش حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ بعض حکام نے حملے میں سہولت کاری کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
تاہم اب تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے جب کہ پاکستان میں اس حملے کی تحقیقات جاری ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان نے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ البتہ اس سے قبل تنظیم کے ایک کمانڈر نے حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
بدھ کو امیر خان متقی نے کہا کہ "ہمارے خطے میں جنگ اور بم حملے ہوتے رہے ہیں لیکن گزشتہ 20 سال کے دوران ہم نے ایک بھی خودکش حملہ ایسا نہیں دیکھا جس میں مسجد کی چھت اڑ جائے اور سینکڑوں لوگ مارے جائیں۔"
افغان وزیرِ خارجہ نے بھی پشاور خودکش حملے سے متعلق ان شبہات اور سوالات کو اٹھایا جو پاکستان میں بعض ناقدین حملے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے متعلق اٹھا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صوبائی پولیس چیف معظم جاہ انصاری نے منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خودکش حملہ آور بطور مہمان مسجد میں داخل ہوا تھا جس نے دھماکے کے لیے 12 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا جسے تھوڑا تھوڑا کر کے پولیس لائنز کے علاقے میں لایا گیا تھا۔
پولیس چیف نے حملہ آور کی باقیات ملنے کا بھی دعویٰ کیا ہے تاہم انہوں نے اس سے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ البتہ انہوں نے حملہ آور کو اندورنی مدد کے امکان کے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔
تحقیقاتی حکام کا بدھ کو کہنا تھا کہ انہوں نے خودکش حملے کے الزام میں متعدد مشکوک افراد کو حراست میں لیا ہے۔