پاکستان کے شہر پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں پیر کو ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد زندگی معمول کی طرف لوٹنا شروع ہوگئی ہے۔دھماکے سے منہدم ہونے والے مسجد کے بیرونی ہال اور میدان کو نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ دوسری جانب صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال پر پولیس اہلکار بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
پشاورسانحے میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ بدھ کو پشاور پریس کلب کے باہر پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد اور سول سوسائٹی نے مظاہرہ کیا۔
احتجاج میں شامل پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔پشاور سانحے میں بھی بڑی تعداد میں پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔ لہٰذا اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔
پولیس اہلکاروں نےمطالبہ کیا کہ انہیں سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے والی گاڑیوں، چیک پوسٹس اور سرکاری اور نجی گاڑیوں کی مکمل تلاشی کی اجازت دی جائے۔
مظاہرے میں شریک پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہاشم رضا ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں عدلیہ سمیت تمام ریاستی ادارے اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کے واقعات کی تحقیقات اب عالمی اداروں یا عالمی عدالتِ انصاف کو کرنی چاہیے۔
ادھر پشاور کے علاوہ نوشہرہ، بنوں، صوابی اور خیبرپختونخوا کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی پولیس اہلکاروں نے احتجاج کیا اور اپنے تحفظ کے لیے مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے شہر پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 100 سے زائد اموات پر سماجی کارکن اور پولیس اہلکار سڑکوں پر نکلے آئے۔
بدھ کو پشاور پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ادھر پشاور کے علاوہ، نوشہرہ، بنوں اور خیبرپختونخوا کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی پولیس اہلکاروں نے احتجاج کیا اور اپنے تحفظ کے لیے مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کیا
صوابی میں ہونے والے احتجاج میں جونیئر رینک اہلکار بھی شریک ہوئے۔ امن چوک پر ہونے والے اس مظاہرے میں شریک افراد نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔
ان کے بقول اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ بند ہونی چاہئیں۔
واضح رہے کہ پیر کو پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکے میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
وفاقی وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ کے مطابق پشاور دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔