افغانستان میں طالبان حکومت نے اتوار کو غیر ملکی ایئرلائنز سے کہا کہ وہ کابل کے لیےکمرشل پروازوں کی آمد و رفت دوبارہ شروع کریں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر مسائل حل ہو چکے ہیں اور یہاں کام تسلی بخش انداز میں ہو رہا ہے۔
دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کے بعد ہزار غیر ملکیوں اور متاثرہ افغانوں کے ہنگامی انخلا کے تناظر میں کابل ہوائی اڈے کو تمام تجارتی پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ ہوائی اڈے کو صورت حال پر قابو پانے کے دوران نقصان پہنچا تھا اور اسے بعد میں محدود تعداد میں امداد لانے والی اور چارٹرڈ مسافر پروازوں کے لیے کھول دیا گیا، جس میں بنیادی طور پر قطر کی جانب سے تکنیکی مدد کی گئی ہے۔
طالبان وزارت خارجہ کے نئے مقرر کردہ ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ اب کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مسائل حل ہو چکے ہیں اور ہوائی اڈہ ملکی اور بین الاقوامی پروازوں کے لیے مکمل طور پر کام کر رہا ہے۔ آئی ای اے نے تمام ایئر لائنز کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
طالبان کی جانب سے غیر ملکی ایئرلائنز کو فلائٹ آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے مطالبے پر فوری رد عمل سامنے نہیں آیا۔
SEE ALSO: افغانستان سے پاکستان پھل درآمد کرنے پر سیلز ٹیکس ختم، کیا افغان معیشت کو سہارا ملے گا؟پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ترجمان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اسلام آباد سے کابل جانے والی کمرشل پروازیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن زمینی حالات ابھی بھی دشوار ہیں اور آپریشن شروع کرنے کے لیے انشورنس کی فیس بہت زیادہ ہے۔
طالبان کی جانب سے غیر ملکی ایئرلائنز سے اپنی پروازیں دوبارہ شروع کرنے کی اپیل اس وقت سامنے آئی ہے جب اسلام پسند نگران حکومت نے الاقوامی جواز حاصل کرنے کی سفارتی کوششوں میں تیزی لانی شروع کی ہے۔
افغانستان کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے کیونکہ اس ملک کے مالی اثاثے امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے منجمد کر دیے ہیں۔ اور طالبان پر عالمی برادری سے کیے جانے والے اپنے وعدے پورے کرنے پر دباؤ بڑھ رہا ہے، جس میں جامع حکومت کے قیام اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔ طالبان نے دوحہ معاہدے میں یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
طالبان نے اپنے سابقہ اقتدار میں جو 1996 سے 2001 تک جاری رہا تھا، انتہائی سخت اور ظالمانہ نظام نافذ کیا تھا جس میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے روک دیا گیا تھا۔ ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ اب ان کی سوچ بدل چکی ہے، جب کہ عالمی برادری ان کے وعدوں کی بجائے ان کے اقدامات پر نظر رکھ رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان حکام نے اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں تمام افغان نسل کے نمائندے شامل ہیں اور خواتین کو بھی جلد حکومت میں شامل کر لیا جائے گا۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ غیر ملکی دباؤ پر کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔
مالی بندشوں کی وجہ سے افغانستان کی معیشت پر شدید دباؤ ہے جس کے پیش نظر انسانی ہمدردی کے عالمی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اس ملک میں شدید قحط پڑ سکتا ہے۔
چین، روس اور پڑوسی ملک پاکستان طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ دنیا پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غربت میں گھرے افغان باشندوں کی فوری انسانی ضروریات کو پورا کرے۔
کابل میں چینی سفیر نے اتوار کو قائم مقام طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور ملک کی مدد کے لیے بیجنگ کے مطالبے کی تجدید کی۔
ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں، بلخی نے کہا کہ سفیر وانگ یو نے "افغانستان کے ساتھ انسانی امداد اور تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔"