افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ملک میں حال ہی میں آنے والے زلزلے کے بعد ایک بار پھر امریکہ سےبیرونی افغان اثاثوں کو بحال کرنے اور پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا ہفتے کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ ان مشکل حالات میں امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے منجمد شدہ اثاثوں کو بحال کرے اور افغان بینکوں پر عائد پابندیاں ہٹائے تاکہ امدادی تنظیمیں باآسانی تعاون فراہم کر سکیں۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے تقریبا ساڑھے نو ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کر ديے تھے۔ بیرون ملک سے افغانستان فنڈز منتقل کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی جس سے ؕحکام کے مطابق ملک کے مالیاتی نظام کو شدید دھچکہ لگا اور پہلے سے کمزور معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔
طالبان حکام کے مطابق زلزلے سے اب تک 1150 افراد ہلاک اور لگ بھگ 1600 زخمی ہو چکے ہیں جب کہ تین ہزار گھر منہدم ہو چکے ہیں۔
زلزلے سے آنے والی تباہی سے پاکستان کی سرحد کے قریب واقع دور افتادہ غربت سے متاثرہ افغان پہاڑی علاقے متاثر ہوئے ہیں جہاں اس پیمانے کی آفات سے نمٹنے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔
دوسری طرف اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان حکام کی مشاورت کے ساتھ زلزلے سے متاثرہ صوبوں پکتیکا اور خوست میں خاندانوں کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کا جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق زلزلے سے سب سے زیادہ متاثرہ چھ میں سے تین اضلاع میں 700 سے 800 خاندان کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیان کے مطابق ان خاندانوں کے افراد جن کے گھر زلزلے سے متاثر نہیں ہوئے یا جزوی متاثر ہوئے وہ بھی زلزلے کے متوقع جھٹکوں کے خوف سے کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق زلزلے کے باعث کم از کم 121 بچے ہلاک ہوئے ہیں جن میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغان حکام زلزلے میں بچ جانے والوں کو امداد پہنچا رہے ہیں تاہم اس سلسلے میں ان کے پاس مطلوبہ اامدادی صلاحیت نہ ہونے کے سبب انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس کے آغاز میں امريکی صدر جو بائیڈن نے بھی ایک صدارتی حکم نامے يا ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت نیویارک میں افغان مرکزی بینک کے کل اثاثوں میں سے سات ارب ڈالر کوغيرمنجمد کر دیا گیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ عدالت سے اجازت طلب کرے گی کہ يہ اثاثے ایک ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کر دیے جائیں۔ ان غير منجمد اثاثوں ميں سے ساڑھے تين ارب ڈالر افغانستان ميں انسانی بحران ميں امداد کے ليے استعمال کرنے کا کہا گیا تھا۔ بقيہ ساڑھے تين ارب ڈالرز گيارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے متاثرین کی جانب سے طالبان کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات سے نمٹنے کے ليے مختص کيے گۓ تھے جس پر بائیڈن انتظاميہ کو زبردست تنقيد کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین جان پیئر کا ہفتے کو صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ امریکہ فوری طور پر ان فنڈز کےاستعمال سے متعلق خدشات پر کام کر رہا ہے تا کہ ان فنڈز سے طالبان کے بجائے افغان عوام کو فائدہ پہنچے۔
دریں اثنا افغانستان میں یونیسیف کے ترجمان محمد ایویا نے زلزلے سے شدید متاثرہ اضلاع میں سے ایک کا دورہ کیا۔
ایک ٹویٹ میں محمد ایویا کا کہنا تھا کہ انہوں نے وہاں مایوسی، ویرانی، مصائب کے علاوہ تاجروں، بین الاقوامی تنظیموں اور حکام کی طرف سے یک جہتی کا مظاہرہ بھی دیکھا۔
دوسری طرف افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ملکوں پاکستان، ایران، ازبکستان اور قطر کی طرف سے متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر کارگو طیارے پہنچ چکے ہیں۔