(وی او اے) افغان حکومت کی جانب سے ایک ہفتہ قبل کی گئی مکالمے کی پیش کش کو وسیع طور پر سراہا گیا ہے۔ اِس پر طالبان کی طرف سے چپ سادھ لینے کے بعد بدھ کے روز ایک بار پھر صدر اشرف غنی نے باغیوں کو اُسی پیش کش کا اعادہ کیا ہے، تاکہ مزید خون خرابے کے بغیر درپیش معاملوں کو حل کیا جا سکے۔
افغان پارلیمان کے نئے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے، صدر نے قانون سازوں کو یقین دلایا کہ اُن کی حکومت ’’طالبان کے ساتھ امن کے مربوط منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی‘‘، جس کا اُنھوں نے گذشتہ ہفتے کابل میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں اعلان کیا تھا۔
غنی کے بقول ’’ہم طالبان سے مطالبہ کریں گے کہ اسلام اور افغانستان کے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مذاکرات میں شامل ہوں، تاکہ خون خرابے اور مزید تباہی کے بغیر، ہم اپنے مسائل اور نااتفاقیوں کا حل نکال سکیں‘‘۔
غنی نے 28 فروری کو نام نہاد ’کابل عمل اجلاس‘ کے دوران جو امن منصوبہ پیش کیا، اُس میں قومی دارالحکومت میں طالبان کو دفتر فراہم کرنے اور مذاکرات میں شامل ہونے والے سرکش راہنماؤں کے خلاف عائد بین الاقوامی تعزیرات اٹھائے جانے کی پیش کش کی۔
لیکن، طالبان نے غنی کی اِس تجویز کا کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا۔ بدھ کے روز دیے گئے اُن کے بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ باغی گروپ نے کابل سے بالواسطہ طور پر بھی کوئی رابطہ نہیں کیا آیا وہ امن عمل میں شامل ہونے پر تیار ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ایک سوال پر، باغی گروپ کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان سیاسی اہل کاروں کی جانب سے اُنھیں غنی کی امن پیش کش کا کوئی جواب نہیں ملا۔
سنہ 2014میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک غنی طالبان کو امن کی پیش کش کرتے رہے ہیں۔ لیکن، باغی گروپ نے کبھی بھی براہِ راست ردِ عمل ظاہر نہیں کیا، جب کہ افغان حکومت کو ’’قابض امریکی افواج کی کٹھ پتلی‘‘ قرار دیا ہے۔
منگل کے روز جاری ہونے والے اس بیان میں بنیادی طور پر افغانستان میں اپنی فوجی تعیناتی میں اضافے کے معاملے پر اُنھوں نے امریکہ پر تنقید کی ہے۔ طالبان نے غنی کی پیش کش کو بالواسطہ مسترد کیا ہے، جسے اُنھوں نے حملہ آوروں کی ’’کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے سیاسی اور فوجی شکست پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش‘‘ کا نام دیا ہے۔
طالبان کے بیان کے مطابق، ’’اگر امریکی افغانستان میں لڑائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اور اگر اُن کا مفاد طویل مدت تک وہاں رہنے کی حکمت عملی نہیں ہے، تو پھر افغانستان میں اضافی فوجی مشیر اور سپاہی بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی بھی ایسی تجویز کو سنجیدگی سے ہرگز نہیں لے سکتا‘‘۔
طالبان نے بارہا کہا ہے کہ وہ صرف امریکہ کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ افغان نہیں بلکہ امریکہ ہی افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق باغیوں کے اولین مطالبے پر فیصلہ دے سکتا ہے۔
تاہم، امریکی حکام نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے، طالبان کے ساتھ براہِ راست بات چیت کے کسی امکان کو رد کیا ہے۔