|
پاکستان میں گزشتہ ہفتے بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے اور اس پر ہونے والی تنقید کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 200 یونٹس تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے 50 ارب روپے کے ریلیف کا اعلان کیا ہے۔
وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے ڈھائی کروڑ گھریلو صارفین کو تین ماہ کے لیے چار روپے سے سات روپے فی یونٹ فائدہ ہو گا۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے منگل کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ 200 یونٹس ماہانہ استعمال کرنے والے ڈھائی کروڑ گھریلو صارفین کو تین مہینے (جولائی، اگست اور ستمبر) کے لیے رعایت دی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریلیف عارضی نوعیت کا ہے اور ملک میں بجلی کا بیس ٹیرف بڑھنے سے ہر طبقہ بالخصوص کم آمدنی والے طبقات زیادہ متاثر ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں بجلی کے نرخوں کی ری بیسنگ یعنی رد و بدل کیا ہے۔ جس کے باعث پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پروٹیکٹڈ صارفین ان صارفین کو کہا جاتا ہے جن کا ماہانہ بجلی کا خرچ 200 یونٹس تک ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ حکومت کو پروٹیکٹڈ صارفین کے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا ادراک ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ کیا گیا ہے؟
حکومت نے پانچ جولائی کو ایک سال میں چوتھی بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2022 سے ملک میں فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت میں 18 روپے اضافہ ہوچکا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے ساتھ ملک میں بجلی کا اوسط ٹیرف 29 روپے 33 پیسے جب کہ زیادہ سے زیادہ ٹیرف 76 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ہے۔
معاشی ماہرین اور خود حکومتی عہدیدار بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق صنعتی شعبے کو سبسڈی کے بعد اوسط انڈسٹریل ٹیرف 17 سینٹ فی کلو واٹ ہے، جو تقریباً 47 روپے 60 پیسے بنتا ہے جو خطے کے دیگر ممالک سے اوسطاً دگنا ہے۔
ایسوسی ایشن کے مطابق بھارت میں بجلی چھ سینٹ فی کلو واٹ یعنی پاکستانی روپوں میں فی یونٹ تقریباً 16 روپے 80 پیسے، بنگلہ دیش میں آٹھ اعشاریہ چھ یعنی پاکستانی روپے میں 22 روپے 40 پیسے فی یونٹ اور ویت نام میں سات اعشاریہ دو سینٹ فی کلو واٹ ریٹ ہے جو پاکستانی روپے میں 20 روپے 16 فی یونٹ ہے۔
SEE ALSO: نیا بجٹ: تمام استثنیٰ ختم، ٹیکسوں میں اضافہ، شمسی توانائی صنعت کی حوصلہ افزائیپاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ماہرین عام آدمی کے لیے ناقابلِ برداشت قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام لینے کے لیے بجلی کے شعبے کے نقصانات کم کرنے پر مجبور ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے باجود ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
بجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کی وجہ کیا ہے؟
پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی کئی وجوہات ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، روپے کی گرتی قدر، کیپٹل پیمنٹس، گردشی قرضے یعنی سرکلر ڈیٹ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات، بجلی چوری، بلوں کی ریکوریز کم ہونا، بجلی کی کھپت میں موسم کے لحاظ سے فرق اور دیگر مسائل شامل ہیں۔
بجلی کے شعبے سے جڑے ماہرین اور خود نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی اپنی سالانہ رپورٹ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ بجلی کے شعبے میں مسائل کی اصل جڑ پاور سیکٹر میں خراب طرزِ حکمرانی ہے۔
بجلی کے شعبے پر نظر رکھنے والے ماہرِ توانائی فرحان علی خان کہتے ہیں پاکستان میں 60 فی صد بجلی ایندھن سے تیار ہوتی ہے۔ اگر عالمی مارکیٹ میں خام تیل، گیس اور کوئلے کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ملک میں بجلی کی قیمتیں خود بخود مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
فرحان خان کے مطابق پاکستان توانائی کے حصول کے لیے پیٹرولیم اور ایل این جی درآمد کرتا ہے جس پر سالانہ 25 سے 27 ارب ڈالر کے اخراجات آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی سے تیار ہونے والی بجلی لگ بھگ 26 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ نو فی صد کے قریب بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور پانچ فی صد کے قریب بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔
ماہرِ معاشیات عبدالستار خان کہتے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں صرف ایندھن کی قیمت ہی شامل نہیں ہوتی بلکہ اس کے ٹیرف میں کیپیسٹی پیمنٹس کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ستار خان نے بتایا کہ کیپیسٹی پیمنٹس سے مراد وہ ادائیگیاں ہیں جو ہر حال میں اُن نجی بجلی کارخانوں کو کرنی ہیں، چاہے ان کی پیدا کردہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ غیر استعمال شدہ بجلی کے پیسے بھی حکومت صارفین سے وصول کرتی ہے۔ بجلی کے بلوں میں اوسط کیپیسٹی چارجز کا حصہ لگ بھگ 70 فی صد ہے۔
SEE ALSO: پاکستان-ایران گیس پائپ لائن: وعدوں سے بھرا ماضی لیکن مستقبل کیا ہو گا؟نیپرا رپورٹ کے مطابق 2023 میں تھرمل بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی استعمال شدہ بجلی کا تناسب محض 34 اعشاریہ 68 فی صد ہی رہا تھا۔ یعنی 65 فی صد سے زائد تھرمل بجلی جو صارفین نے استعمال تو نہیں کی مگر اس کا بل ضرور ادا کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹس کا اثر تب ہی ختم کیا جاسکتا ہے جب ملک میں بجلی کا استعمال بڑھایا جائے۔ لیکن ملک میں خراب معاشی صورتِ حال کے باعث بجلی کی کھپت میں اضافے کے بجائے کمی دیکھی گئی ہے۔
سال 2022 کے مقابلے میں 2023 میں بجلی کی خریداری میں نو اعشاریہ 41 فی صد کی بڑی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
ترسیل اور تقسیم کاری کے نظام میں خامیاں
پاکستان میں بجلی کی سپلائی کے لائن لاسز خطے میں اس وقت سب سے زیادہ بتائے جاتے ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق بجلی کی ترسیل کے نظام میں خرابیوں کے باعث سسٹم اپنی استعداد سے کم استعمال ہوتا ہے اور یوں اس کی انڈر یوٹیلائزیشن سے بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔
نیپرا کی لائسنس یافتہ جنریشن کمپنیوں کی کارکردگی وقت کے ساتھ گرتی چلی گئی ہے۔ جامشورو پاور کمپنی سے پیدا شدہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 54 روپے 62 پیسے سے بھی بلند ہوچکی ہے۔ اسی طرح مظفر گڑھ میں واقع جنریشن پلانٹس سے حاصل کردہ بجلی کا فی یونٹ نرخ 2023 میں 50 روپے سے تجاوز کر چکا تھا۔
وزارت توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے دو ہزار 800 ارب تک جا پہنچے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گردشی قرضوں سے بجلی کے بلوں پر پڑنے والا بوجھ 70 فی صد تک چلا گیا ہے جب کہ صرف 30 فی صد بجلی پیدا کرنے کی لاگت آتی ہے۔
SEE ALSO: کیا پاکستان میں بجلی سولر انرجی سسٹم لگانے والوں کی وجہ سے مہنگی ہو رہی ہے؟وزیرِ توانائی سردار اویس لغاری نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت آئندہ پانچ برس میں بجلی کے شعبے کو مکمل طور پر بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے بقول دس میں سے آٹھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نئے بورڈ تشکیل دیے ہیں اور اگلے مرحلے میں حکومت آئندہ دو سے تین سال میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کے قریب ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف بجلی چوری 600 ارب روپے تک جاپہنچی ہے اور اس نقصان کا خمیازہ انہی صارفین کو ادا کرنا ہوتا ہے جو باقاعدگی سے بل جمع کراتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل حکومت نے ملک کی تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں نئے بورڈ ممبران کا تقرر کیا تھا۔ لیکن حکومت نے ان کا احتساب کیے بغیر ان کی جگہ نئے ممبران تعینات کر دیے ہیں۔