|
اسلام آباد — 16 دسمبر 2014 کی دوپہر جب والدین اپنے بچوں کی اسکول سے واپسی کے منتظر تھے تو ایسے میں تمام ٹی وی چینلز پر پشاور کے ورسک روڈ پر قائم آرمی پبلک اسکول (آے پی ایس) پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر چلنا شروع ہوئی۔
گھنٹوں پر محیط اس سفاکانہ کارروائی اور آپریشن کلین اپ میں 130 سے زائد طلبہ سمیت 147 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
اس حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔
اسی مناسبت سے سرکاری سطح پر جاری ہونے والے ایک نوٹی فکیشن کے مطابق اے پی ایس سانحے کے 10 سال پورے ہونے پر لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسکولوں اور کالجز میں چھٹی دے دی گئی۔
خیبر پختونخوا جہاں یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا وہاں اس حوالے سے حکومت کی جانب سے تعطیل کا اعلان نہیں کیا گیا اور تمام اسکول معمول کے مطابق کھلے۔
'ہمارا دکھ آج بھی تازہ ہے'
سانحے میں جان کی بازی ہارنے والے حذیفہ کی والدہ عندلیب آفتاب کے ذہن میں اس واقعے کے زخم آج بھی تازہ اور تلخ یادیں دل پر نقش ہیں۔
ان کے بقول اگرچہ حذیفہ کو بچھڑے ایک دہائی گزر گئی ہے تاہم آج بھی یہ دکھ تازہ ہے۔
عندلیب آفتاب خود بھی اے پی ایس میں ٹیچر تھیں اور سانحے سے تھوڑی دیر قبل ہی انھوں نے اپنے بیٹے کو آڈیٹوریم کی جانب بھیجا تھا جہاں دہشت گردوں نے طلبہ کو نشانہ بنایا۔
ان کے بقول انھیں کیا پتا تھا کہ بیٹے کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اس سانحے میں عندلیب کا ہاتھ بھی زخمی ہو گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ حذیفہ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ وہ بڑے ہو کر سائنس دان بننا چاہتے تھے۔ تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے بعد وہ ٹوٹ کر رہ گئی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اللہ نے انھیں ہمت دی۔
عندلیب کہتی ہیں کہ کبھی کبھار وہ سوچتی تھیں کہ جب بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھیں گے تو بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں گے تاہم اس واقعے کے بعد انھیں یہ سمجھ آیا ہے جب اللہ سہارا بن جائے تو پھر کسی اور کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد متاثرین کی جانب سے جہاں اسکول کی سیکیورٹی پر سوال اُٹھائے گئے وہیں دہشت گردی سے متعلق ریاستی پالیسی پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے۔
'ریاست کو دہشت گردوں سے مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی'
پشاور یونی ورسٹی میں شعبہ ابلاغِ عامہ سے منسلک ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس پلان پر جامع عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ان کے بقول ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن 'ضربِ عضب' کی وجہ سے ایک عرصے تک دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جس کا کریڈٹ سیکیورٹی فورسز کو جاتا ہے۔
تاہم عرفان اشرف سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک ایسی صورتِ حال میں جب پاکستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک، ٹھکانے، انٹیلی جینس اور حتیٰ کہ انہیں سرحد پار دھکیل دیا گیا تھا تو پھر ریاست کو ان سے مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ڈاکٹر عرفان اشرف کہتے ہیں کہ ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف جو آدھی کامیابی آپریشن 'ضرب عضب' کی صورت میں حاصل کی تھی وہ مذاکرات کے بعد ایک طرح سے ناکامی میں بدل گئی۔
ان کے بقول اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو عوام کی ریاست پر بد اعتمادی مزید بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان 'انسٹی ٹیوٹ فار پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز' کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2024 میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوئے۔
ڈائریکٹر ریسرچ گل داد خان کا کہنا ہے کہ رواں سال دہشت گردی کے 1100 سے زائد حملے ہو چکے ہیں جس میں تقریباً 500 کے قریب سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ان کے بقول اگر ان حملوں کا گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو یہ تعداد 35 فی صد سے زائد بنتی ہے جب کہ ہلاکتوں میں 11 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سابق سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ اے پی ایس سانحہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے ہمسایہ کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اس کے اثرات بھی انے والے دنوں میں پاکستان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان کے بقول شام کی صورتِ حال کے بعد وہاں سے شدت پسند تنظیمیں پاکستان کا بھی رُخ کر سکتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کا براہ راست تعلق گورننس سے جڑا ہوتا ہے اور جہاں قانون کی حکمرانی پر سوال اُٹھتے ہیں وہاں شدت پسند تنظیموں کے لیے مواقع موجود رہتے ہیں۔
سید اختر علی شاہ کہتے ہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف حکومت رٹ کچھ زیادہ مؤثر نہیں ہے۔
خیال رہے کہ ملک میں ریاستی ادارے اور حکومت دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائیوں کے دعوے کرتے رہے ہیں۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے حال ہی میں قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2024 تک مجموعی طور پر لگ بھگ 13 ہزار انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جس کے نتیجے میں 341 دہشت گرد مارے گئے۔
گزشتہ 10 ماہ کے دوران چار دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ ان میں زینبیون بریگیڈ، مجید بریگیڈ اور حافظ گل بہادر گروپ شامل ہیں۔