بھارتی ریاست ہریانہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے باعث اب بھی حالات کشیدہ ہیں۔ وزیرِ اعلٰی نے مرکزی حکومت سے فورسز کی چار مزید کمپنیاں بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
ہریانہ کے نوح، فرید آباد اور پلول اضلاع اور گوڑ گاؤں کے تین سب ڈویژنوں میں میڈیا رپورٹس کے مطابق اب بھی کشیدگی برقرار ہے۔ ریاست میں نیم مسلح دستوں کی 20 کمپنیاں پہلے سے ہی تعینات ہیں۔
پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے نوح ضلع کے قصبے تاؤڑی میں گزشتہ رات ساڑھے گیارہ بجے دو مسجدوں پر پیٹرول بم پھینکے۔ حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ البتہ مسجدوں میں آگ لگ گئی۔ اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کے عملے نے پہنچ کر آگ کو بجھایا۔
واضح رہے کہ ریاست ہریانہ کے ضلع نوح میں اس وقت فسادات شروع ہوئے تھے جب پیر کو ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی ایک یاترا گزر رہی تھی جس پر نامعلوم افراد نے پتھراؤ کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس دوران گوڑگاؤں کی ایک مسجد کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ حملہ آوروں نے مسجد کے نائب امام حافظ محمد سعد پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ مجموعی طور پر فساد کے نتیجے میں اب تک چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہریانہ کی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس ممتا سنگھ کا کہنا ہے کہ فسادات سے نوح سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ نوح کے علاوہ کسی اور علاقے میں کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔
نوح کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ورون سنگلا نے ایک بیان میں کہا کہ مسجدوں پر بم نہیں پھینکا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شارٹ سرکٹ سے آگ لگی تھی۔
وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے کہا ہے کہ تشدد میں ملوث کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا البتہ کسی بے قصور کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔
سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے لیے کمیٹی قائم
وزیر داخلہ انل وِج کے مطابق سوشل میڈیا نے تشدد بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لہذٰا حکومت نے 21 جولائی کے بعد سے سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے لیے تین رکنی ٹیم تشکیل کی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ تشدد کے سلسلے میں اب تک 116 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن کو دو روز کے لیے پولیس تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ فساد کے سلسلے میں 44 ایف آئی آرز بھی درج کی گئی ہیں۔
پیر کو نوح میں تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جسے جمعرات کو کچھ دیر کے لیے اٹھایا گیا۔ جب کہ کئی مقامات پر دفعہ 144 نافذ ہے۔
فریدآباد، پلول اور گوڑگاؤں اضلاع میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ ان اضلاع اور گوڑگاؤں کے تین سب ڈویژنوں میں انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی تھیں۔
انتظامیہ نے جمعرات کو دن میں ایک سے چار بجے تک انٹرنیٹ سروسز بحال کیں تاکہ گروپ سی کے عہدے کے لیے اسکریننٹ ٹیسٹ میں امیدواروں کو سہولت ہو۔
امریکہ کا قیامِ امن پر زور، دہلی میں سیکیورٹی سخت
دریں اثنا امریکہ نے ہریانہ میں قیامِ امن پر زور دیا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کو اپنی یومیہ پریس بریفنگ میں فریقین سے تشدد سے بچنے کی اپیل کی ہے۔
ہریانہ میں فساد کے بعد دہلی میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے اور پولیس کی گشت بڑھا دی گئی ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار نے خبر رساں ادارے 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
گوڑگاؤں میں رہائش پذیر سابق رکن پارلیمان محمد ادیب کا کہنا ہے کہ گوڑگاؤں میں گزشتہ کئی برس سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گوڑگاؤں دہلی کے قریب بہت بڑا صنعتی شہر ہے۔ اس کا اندیشہ نہیں تھا کہ یہاں بھی ایسا ہو گا۔ ان کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو خوف کے ماحول میں رکھنا چاہتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گوڑگاؤں اور قرب و جوار کی آبادیوں سے مسلمان نقل مکانی کر رہے ہیں۔
نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق گوڑگاؤں کے مختلف علاقوں میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 مسلم خاندان آباد تھے۔ ان میں سے بیشتر چلے گئے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ آمد و رفت کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں جا پا رہے ہیں۔
ایک سینئر پولیس اہل کار نے اس کا اعتراف کیا اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم ڈرائیور، مالی، ہاکر، گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اور خادمائیں اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔
محمد ادیب کے مطابق گوڑگاؤں کی کالونیوں میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی دکانوں اور کام کرنے کی جگہوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔ وہ سب خوف زدہ اور عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ بڑی تعداد میں مسلم خاندان وہاں سے جا رہے ہیں۔
ان کے بقول ان کے رشتے داروں، دوستوں اور شناساؤں میں سے کچھ ہوٹلوں میں شفٹ ہو گئے ہیں اور کچھ دہلی چلے گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کارپوریٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ سوہنا میں شاہی مسجد پر منگل کی رات میں شرپسندوں نے حملہ کر دیا تھا۔ لیکن سکھ برادری کے لوگوں نے موقع پر پہنچ کر حملہ ناکام بنایا۔
محمد ادیب کے مطابق گوڑگاؤں ہریانہ کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ 70 فی صد ریونیو یہیں سے آتا ہے لیکن حکومت کو اس کی بھی فکر نہیں ہے۔
یاد رہے کہ گوڑگاؤں میں درجنوں کثیر قومی کمپنیاں ہیں جن میں امریکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گوڑگاؤں پولیس کے ترجمان سبھاش بوکین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع میں اضافی فورس تعینات کی گئی ہے۔
دریں اثنا بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر راؤ اندرجیت سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے وشو ہندو پریشد کے جلوس میں ہتھیار لے کر جانے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ انھیں ہتھیار کن لوگوں نے دیے اور کیا جلوس میں ہتھیار لے کر جایا جاتا ہے۔
ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ نے فساد کے لیے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انھوں نے جلوس کے بارے میں تفصیلات پیش نہیں کی تھیں۔
بی جے پی کے ترجمان کے کے مشرا کا کہنا ہے کہ جلوس میں ہتھیار لے کر جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا پہلے سے ہوتا آیا ہے۔ بجرنگ دل کے رہنما بٹو بجرنگی کا کہنا ہے کہ جلوس میں ہتھیار پوجا کرنے کے لیے لے جائے گئے تھے کسی پر حملہ کرنے کے لیے نہیں۔