پاکستان میں آئندہ ماہ آٹھ فروری کو عام انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا کے افغان سرحد سے متصل اضلاع کے امیدواروں پر حالیہ حملوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جاری کیے گئے 'سیکیورٹی تھریٹس' کے اجرا نے سیاسی حلقوں میں الیکشن پر بحث چھیڑ دی ہے۔
ایک جانب یہ بحث ہو رہی ہے کہ ملک میں امن و امان کی موجودہ صورتِ حال کے دوران کیا پر امن طریقے میں انتخابات کا انعقاد یقینی ہو پائے گا؟ دوسری جانب سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انتخابی مہم میں دہشت گردی کے واقعات کو جواز بناکر الیکشن ملتوی کیے جانے کے خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
بدھ کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ کے ایک گاؤں تپی میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 40 کے امیدوار اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ کی گاڑی پر انتخابی مہم کے دوران حملہ کیا گیا۔
نامعلوم افراد کی جانب سے کی گئی فائرنگ میں محسن داوڑ سمیت انتخابی مہم میں شامل تمام لوگ محفوظ رہے۔ مقامی پولیس کے مطابق محسن داوڑ حملے کا نشانہ تھے۔ ان کی گاڑی بلٹ پروف ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ رہے۔
اسی روز خیبر پختونخوا کے پاکستان افغانستان سرحد پر واقع ضلع باجوڑ میں ماموند کے علاقے میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے-19 سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے نامزد امیدوار قاری خیر اللہ کی گاڑی کے قریب بم دھماکہ ہوا۔
اس بم دھماکے میں بھی خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ دونوں حملوں کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ البتہ ماہ اگست میں شمالی وزیرستان میں نامعلوم شدت پسندوں کی جانب سے خطوط تقسیم کیے گئے تھے جن میں محسن داوڑ اور اتمان زئی قومی جرگہ نامی قبائلی اتحاد کے رہنماؤں کو قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
اسی طرح باجوڑ میں داعش خراسان کی جانب سے جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں کو نشانہ بننے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اس حملے کی ذمہ داری داعش (خراسان) پر ڈال رہے ہیں۔ داعش خراساں عالمی شدت پسند تنظیم داعش (دولتِ اسلامیہ) کی پاکستان اور افغانستان کے لیے تشکیل کردہ شاخ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جے یو آئی اور اے این پی کے رہنماؤں پر حملوں کا انتباہ
شمالی وزیرستان اور باجوڑ حملوں سے ایک روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سے قومی اسمبلی کی نشست پر جے یو آئی (ف) کے امیدوار اور سابق وفاقی وزیرِ مواصلات مولانا اسعد محمود کو ضلعی پولیس کی جانب سے جاری ایڈوائزری نوٹس میں منتبہ کیا تھا کہ دہشت گرد ان کو دورانِ سفر یا رہائش گاہ پر ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ غیر ضروری سفر اور اجتماعات میں شرکت سے گریز ہیں جب کہ اپنی سفری تفصیلات کو خفیہ رکھیں۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے صاحب زادے مولانا اسعد محمود قومی اسمبلی کی اسی نشست سے 2018 کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے اور ان پر اس وقت بھی انتخابی مہم کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔
چند روز قبل پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور پولیس سربراہان کو جاری ایک مراسلے میں مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی پر حملوں کے خطرہ کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ انہیں بھی حفاظتی انتظامات کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت پر الزامات
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ پر امن اور شفاف انتخابات منعقد کرنے کے ذمہ دار نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے پر امن فضا قائم کرنے کے بجائے صرف سیکیورٹی تھریٹ کے نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں اور خود کو بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
جے یو آئی(ف) کے مرکزی ترجمان اسلم غوری نے وفاقی وزارتِ داخلہ کے مراسلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صرف خطرات لاحق ہونے کے نوٹس جاری کرنے سے انتظامیہ کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں کی سیکیورٹی کے حوالے سے آئے روز نوٹس آ رہے ہیں۔ لیکن انتظامیہ، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو پرواہ نہیں ہے۔
ان کے بقول کیا ہم سمجھ لیں کہ دہشت گردی کی ان خبروں کے پیچھے کوئی بڑی سازش کار فرما ہے۔
باجوڑ میں پارٹی کے امیدوار پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو انتخابی مہم کا ماحول نہ فراہم کرنے میں الیکشن کمیشن، عدلیہ اور انتظامیہ کا کردار ہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ خیبرپختونخوا کی چیئر پرسن اورسابق ایم این اے بشریٰ گوہر نے بھی محسن داوڑ کی انتخابی مہم پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے حفاظتی انتظامات ممکن بنانے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ریاست کی طالبان کے حوالے سے ناقص پالیسی کی وجہ سے وزیرستان اور پختونخوا میں دہشت گردی بڑھتی رہی ہے۔ اس طرح کے دہشت گرد حملوں اور خطرناک ماحول میں چیئرمین محسن داوڑ کو لیول پلیئنگ فیلڈ کس طرح فراہم کی جاۓ گی۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ ماہ نومبر میں بھی خیبر پختونخوا کے محکمۂ داخلہ نے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ عام انتخابات میں جے یو آئی(ف) اور اے این پی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات موجود ہیں۔ تحریکِ انصاف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا شدت پسند گروہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بھی خطرات لاحق ہے۔
ماضی کے انتخابات اور دہشت گردی
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والے تمام انتخابات میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی امور سے متعلق قائم تھنک ٹینک ’پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز‘ کی گزشتہ برسوں کی سالانہ رپورٹس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ ماضی کے تین عام انتخابات میں 2013 کے الیکشن سب سے زیادہ پر تشدد رہے جس میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی کالعدم شدت پسند تنظیموں نے الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ریلیوں پر حملے کیے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک بھی ہوئے۔
تھنک ٹینک کے سربراہ محمد عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایاکہ پاکستان میں 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن اور متعدد شدت پسندوں گروہوں کے انضمام کے سبب ٹی ٹی پی وجود میں آئی جس سے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔
ان کے بقول اس دوران کچھ مخصوص سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے نظریات اور حکومت کی شدت پسندی کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔
ان کے بقول ان جماعتوں میں اے این پی سر فہرست ہے جن کے قائدین، اراکین اسمبلی اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ کراچی شہر میں ٹی ٹی پی کے ہاتھوں دہشت گردی کا نشانہ بنی۔ اس کے ساتھ پیپلز پارٹی اورقومی وطن پارٹی بھی ٹی ٹی پی کے حملوں کی زد میں رہیں۔
نئے شدت پسند گروہ بڑا خطرہ
قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افسران کا کہنا ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ خطرہ داعش کی جانب سے ہے جو مذہبی جماعتوں خاص طور پر جے یو آئی (ف) کو نشانہ بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔
پشاور میں تعینات ایک سیکیورٹی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی سخت مخالف ہے جب کہ جے یو آئی (ف) کے متعدد رہنماؤں کے افغان صوبے کنڑ میں طالبان قیادت سے قریبی روابط کی بنیاد پر داعش باجوڑ سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دو سال سے جے یو آئی کے رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے۔
داعش نے گزشتہ برس جولائی میں باجوڑ کے علاقے خار میں جے یو آئی (ف) کے ایک کنونشن کو نشانہ بنایا تھا جو انتخابی مہم کے حوالے سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس ورکرز کنونشن پر خود کش حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ پاکستان میں 2023 میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں سے ایک تھا جب کہ فروری 2024 کے عام انتخابات سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت پر ہونے والا پہلا حملہ بھی تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس حملے کے کچھ ہفتے بعد داعش نے بلوچستان کے شہر مستونگ میں جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ پر خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔
باجوڑ حملے کے بعد داعش نے پشتو زبان میں 92 صفحات پر ایک کتابچہ جاری کیا تھا جس میں جے یو آئی (ف) کی سیاست، افغان طالبان، امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اور جمہوری عمل میں حصہ لینے پر تنقید کی گئی تھی جب کہ مزید حملوں کی دھمکی بھی دی تھی۔
دوسری جانب ٹی ٹی پی ماضی کے برعکس اپنے اعلامیوں اور مطبوعات میں بار بار یہ اعادہ کر رہی ہے کہ عوامی مقامات اور سیاسی جماعتیں اب ان کا ہدف نہیں ہیں۔
پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ سیکیورٹی افسر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ٹی ٹی پی اب ایک حکمتِ عملی کے ذریعے خود عوامی مقامات یا سیاسی رہنماؤں پر حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔ مگر اسی گروہ سے وابستہ دھڑے حافظ گل بہادر گروپ یا تحریکِ جہادِ پاکستان جیسی نئی تشکیل کردہ تنظیمیں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہتی ہیں۔
انہوں نے اس حوالے سے ماہ جنوری میں پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش حملے کا حوالہ دیا جس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی مرکزی تنظیم کے بجائے گروہ ہی کے ایک کمانڈر کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔
سیکیورٹی افسر کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی نے جولائی 2023 میں ضلع شانگلہ کے علاقے مارتونگ میں مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر امیر مقام پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں امیر مقام محفوظ رہے تھے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ تحریکِ جہاد پاکستان نامی نئی شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے کہنے پر سیاسی جماعتوں پر حملے کر سکتی ہے۔
’انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے‘
بعض سیاسی حلقے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ نگراں حکومت شدت پسند تنظیموں کی جانب سے حملوں میں اضافے کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کر سکتی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر تنظیموں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
’پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز‘ کی جانب سے تین جنوری کو جاری سالانہ سیکیورٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین برس میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق 2023 میں دہشت گردی کی 306 کارروائیوں میں 693 افراد ہلاک جب کہ 1124 زخمی ہوئے۔ 2022 کے مقابلے میں 2023 میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فی صد اضافہ ہوا جب کہ جانی نقصان 2022 کے مقابلے پر 65 فی صد زیادہ ہوا۔
اسلام آباد میں تعینات الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار کے مطابق موجودہ حالات ماضی سے کافی مختلف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی ریلیوں کو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کو در پیش خطرات ماضی کی نسبت کم ہیں جس کی وجہ سے یہ انتخابات ملتوی ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہے۔