کالعدم تنظیم جماعتِ الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کے بیٹے طلحہ سعید لاہور سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑے رہے ہیں۔ اُن کے کاغذاتِ نامزدگی بھی منظور ہو چکے ہیں۔
حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید پاکستان مرکزی مسلم لیگ (پی ایم ایم ایل) کے ٹکٹ پر لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 122 سے الیکشن لڑیں گے۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ لاہور کے ترجمان عبد الحنان کا کہنا ہے کہ حافظ سعید کا مرکزی مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حافظ سعید ہی نہیں بلکہ جماعتِ الدعوة کے کسی بھی رکن کا اِس سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی اُن کی جماعت کو جماعتِ الدعوة یا حافظ سعید کے ساتھ منسلک کرتا ہے تو وہ اُس کی مذمت کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الحنان کا مزید کہنا تھا کہ اُن کی جماعت کا نام پاکستان مرکزی مسلم لیگ ہے جس نے حافظ محمد سعید کے بیٹے طلحہ سعید کو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 122 سے ٹکٹ جاری کیا ہے اور وہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
خیال رہے این اے 122 لاہور سے قومی اسمبلی کا حلقہ ہے جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ لاہور کے ترجمان عبد الحنان کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت کے صدر خالد مسعود سندھو ہیں جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لاہور سے اُن کی جماعت کے 14 امیدوار قومی اسمبلی کے جب کہ 30 امیدوار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ اِسی طرح ملک بھر سے 532 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
خیال رہے امریکہ اور بھارت نے حافظ سعید کا نام مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے پاکستان سے حافظ سعید کی بھارت حوالگی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
عبدالحنان واضح کرتے ہیں کہ اُن کی جماعت کا ملی مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں جس کا مقدمہ بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ خالد مسعود سندھو نے پاکستان مرکزی مسلم لیگ کو 2020 میں قائم کیا تھا اور اِسے 2022 میں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرایا تھا۔ اُن کی جماعت کا انتخابی نشان کرسی ہے۔
خیال رہے کہ حافظ سعید کو 2020 میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تین مختلف مقدمات میں 11 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کُنور دِلشاد احمد کا کہنا تھا کہ جب الیکشن کمیشن کے پاس کوئی بھی جماعت رجسٹرڈ ہو جائے تو وہ الیکشن لڑنے کی مجاز ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب ایک جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہو گئی ہے۔ اگر اُس جماعت پر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ اعتراض رجسٹریشن کے مراحل میں الیکشن کمیشن کے پاس درج کرا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی بھی جماعت کی رجسٹریشن کے باوجود اگر الیکشن میں اس کے کسی امیدوار کا نام کالعدم فہرست یا مقدمے میں موجود ہو، تو اُس کے کاغذات چیلنج ہو سکتے ہیں۔
کُنور دِلشاد کے بقول کسی کا بیٹا ہونا کوئی نا اہلیت نہیں ہے۔ اگر اُس شخص یعنی اُس امیدوار پر کوئی مقدمہ نہیں ہے تو الیکشن قوانین کے تحت وہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کر کے انتخاب لڑتی ہے تو الیکشن قوانین 215 کے تحت اُسے الیکشن کمیشن میں درخواست دینا پڑتی ہے کہ وہ فلاں سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لے گی۔
پاکستان میں پارلیمنٹ، انتخابی نظام کی مضبوطی اور مقامی حکومتوں کے حوالے سے کام کرنے والا غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نمائندے رشید چوہدری بتاتے ہیں کہ کسی بھی جماعت پر کسی بھی حوالے سے پابندی عائد کرنا یا اُس پر انتخاب لڑنے کے حوالے سے پابندی کا طریقۂ کار قوانین میں موجود ہے۔ اِسی طرح کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے یا اُس پر پابندی لگانے کا طریقۂ کار بھی الیکشن قوانین میں موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ایسی جماعت یا اُن کے امیدوار انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں جب تک ریاست نے اُن پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ لگائی ہو۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک پوری جماعت کی بجائے کسی انفرادی شخص پر ریاست کو کوئی اعتراضات ہیں یا اُس پر پابندی ہے تو اُس کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے مرحلہ میں وہ چیزیں سامنے آ جائیں گی۔
یاد رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں جماعتِ الدعوة کے زیر انتظام سیاسی جماعت آل پاکستان ملی مسلم لیگ نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ البتہ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے امیدوارں نے خواہ خاطر ووٹ نہیں لیے تھے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کُنور دِلشاد بتاتے ہیں کہ جماعتِ الدعوة بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اگر نام بدل کر سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹر ہو گئی ہے اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے مرحلے میں کسی نے بھی اُن کے امیدواروں پر کوئی اعتراضات نہیں کیے تو وہ انتخابات میں حصہ لینے کے مجاز ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نمائندے رشید چوہدری بتاتے ہیں کہ اگر کسی جماعت پر یا اُس کے کسی بھی امیدوار پر ریاست کی جانب سے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور اُس سیاسی جماعت کا الیکشن کمیشن کے پاس اُسی طرح اندراج ہے جیسے کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کا ہے تو اس جماعت سے وابستہ افراد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
مبصرین کی رائے میں پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک مرکزی دھارے کی سیاست میں زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرتا جس کی وجہ اِن جماعتوں کی عوامی سطح پر کم پذیرائی ملتی ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کُنور دِلشاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک تو موجود ہے۔
ایک مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنہون نے ملک بھر میں اپنے 1400 امیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔ اِسی طرح جماعتِ اسلامی نے 2200 امیدوار تمام حلقوں میں اپنے امیدوار بنائے ہیں۔
اُن کی رائے میں پاکستان میں موجود مذپبی سیاسی ووٹر زیادہ متحرک نہیں ہے یعنی وہ ایسا ووٹر ہے جو زیادہ اثر نہیں رکھتا۔ مگر جو بڑی مذہبی سیاسی جماعت جیسا کہ ٹی ایل پی ہے، اُن کا ہر حلقے میں پانچ ہزار سے سات ہزار ووٹ بینک ہے۔ اُنہوں نے 2018 کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر اپنی موجودگی کو منوایا ہے اور وہ چوتھی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
یاد رہے حافظ محمد سعید کالعدم تنظیم جماعتِ الدعوة کے سربراہ ہیں جنہیں پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے جرم میں سزا سنائی ہے۔ عدالتی فیصلے کے تحت جماعتِ الدعوة کے تمام اثاثے ضبط کی جا چکے ہیں۔