|
امریکی خلائی ادارے ناسا کا تیار کردہ دنیا کا پہلا ایسا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج دیا گیا ہے جو زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذرائع کی نشاندہی کرے گا۔
ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پا نے کے سلسلے میں کی جانے والی تحقیق میں سائنسدانوں کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر خاص توجہ مرکوز ہے۔
گرین ہاس گیسوں سے مراد وہ گیسز ہیں جو زمین سے حرارت جذب کر نے کے بعد فضا سے پھر حرارت زمین کی طرف واپس ریلیز کرتی ہیں اور یوں سطح زمین پر درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ان گیسوں میں کاربن، میتھین اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔ ان گیسوں کے زمین کو گرم کرنے کے عمل کو گرین ہاوس افیکٹ کہا جاتا ہے۔
اس تناظر میں "ٹینیجر۔ون" کے نام کے سیٹلائٹ کو ماحولیاتی تبدیلی کے تدارک کی جانب ایک اہم ٹول قرار دیا جارہاہے۔ سیارے کا نام امریکہ میں پائے جانے والے پرندے ٹینیجر موسوم کیا گیا ہے۔
ٹینیجر۔ون مختلف سائنسی اداروں کے تعاون سے بنا یا گیا ہے جسے "کاربن مپیر کو لیشن" کا نام دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں تین برس میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 20 فی صد اضافہریاست کیلی فورنیا میں "اسپیس ایکس فالکن نائن" راکٹ سے خلا میں بھیجا گیا یہسیٹلائٹ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے جو ناسا کے نام سے مشہور "نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنیسٹریشن" ادارے کی جیٹ پروپلژن تجربہ گاہ میں تیارکی گئی ہے۔
یہ سیٹلائٹ انتہائی جدید "اسپیکٹرومیٹر " ٹیکنالوجی کے ذریعہ تصاویر لے گا جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار بتانے کے ساتھ ساتھ ان گیسوں کے اخراج کے صحیح مقام کی نشاندہی کرے گا۔
یہاں تک کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں گیسوں کا اخراج کرنے ولی فیکٹریوں کے محل وقوع اور ان میں استعمال ہونے والی مشینوں کے بارے میں بھی پتہ چل سکے گا۔
خلا پرتحقیق کرنے والی سائنسدان اور جیو کیمسٹ ڈاکٹر لاری لیشین نے "ارتھ " میگیزین کو بتایا کہ اسپیکٹرو میٹر ٹیکنالوجی ناسا میں چار دہائیوں پر محیط طویل تحقیق کا ثمر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیارے سے حاصل ہونے والا ڈیٹا "کاربن میپر" نامی انٹرنیٹ پورٹل پر عوام کی رسائی میں ہوگا۔
حاصل شدہ ڈیٹا پر مختلف ادارے مل کر تحقیق کریں گے تا کہ خارج ہونے والی میتھین گیس کی مقدار کا صحیح تعین کیا جا سکے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے ذرائع کا بھی پتا چلایا جاسکے۔
تحقیقی ادارے "ورلڈ ری سورسز انسٹی ٹیوٹ" کے مطابق دنیا بھر میں گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے تین ملک چین، امریکہ اور بھارت ہیں۔
گرین ہاوس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج توانائی کے شعبے میں دیکھا گیا ہے جس میں کوئلے سے توانائی حاصل کرنا بھی ایک اہم وجہ ہے۔
ان تینوں ملکوں کا اخراج دنیا کا 42.6 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے سو ایسے ممالک جو کم گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں ان کا کل حصہ صرف 2.9 فیصد ہے۔
SEE ALSO: نئی دہلی میں شدید گرمی، درجۂ حرارت تقریباً 53 ڈگری ریکارڈپاکستان جسے تباہ کرن سیلابوں اور شدید گرمی کی لہروں کی صورت میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے اکثر اس ستم ظریفی کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی تناظر میں یہ ملک ایک فیصد سے بھی کم گرین ہاوس گیسون کا اخراج کرتا ہے جبکہ یہ دنیا کے دس ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کے مہلک ترین اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عالمی موسمیاتی ادارے کے مطابق گزشتہ کچھ سال تاریخ کے گرم ترین سال ریکارڈ کیے گئے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ آب و ہوا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
اس کے علاوہسمندری سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ، سمندری طوفانوں، جنگلاتی آگ بھڑکنے اور سیلابوں کی تعداد اور شدت میں اضافے کے واقعات کا تعلق بھی آب و ہوا میں بڑے پیمانے پر تبدیلی سے بتایا جاتا ہے۔
"پاسٹ کرونیکل" اشاعت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی کو اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کے شدید ترین اثرات کا سامنا ہے جبکہ خطے کے ملکوں میں درجہ حرارت بہت بڑھ گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سائنسدان خطے کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں کہ بار بار خطے کو لپیٹ میں لینے والی شدید گرمی کی لہروں سے آنے والی دہائیوں میں حالات اس قدر سخت ہو جائیں گے کہ کئی حصے غیر آباد ہو جائیں گے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی معاہدے کے تحت دنیا کے ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے قبل کے درجہ حرارت سے دو درجہ سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن حالیہ سالوں کی شدید گرمی کے بعد یہ خدشات عام پائے جاتے ہیں کہ اس ہدف کا حصول نظر نہیں آتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والی گیسوں کے اخراج پر مکمل قابو بھی پالیا جائے تو آب و ہوا کو نارمل کرنے میں کئی دہائیاں اور بعض کے مطابق ایک صدی سے زیادہ وقت درکار ہوگا۔ مزید یہ کہ دنیا کو اس کی تباہی، صحت اور اقتصادی قیمت چکانا ہوگی۔
اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹینیجر سیٹلائٹ ایسے مشترکہ کام کی پر امید علامت ہے کہ جس کے تحت لوگ ایک ایسے باہمی تعاون میں شراکت دار بنیں جس کے ذریعہ پائیدارترقی کا حصول ممکن ہو سکے۔