امریکہ کے صدارتی انتخابات میں 270 کے ہندسے کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ہندسہ خوش بختی کی علامت ہو یا نہ ہو، لیکن اس تعداد کے برابر یا اس سے زیادہ مندوبین یعنی ڈیلیگیٹس کے انتخاب پر کوئی امیدوار وائٹ ہاؤس تک پہنچ سکتا ہے۔
امریکہ کی صدارت کا فیصلہ پاپولر ووٹ یعنی براہِ راست عوام کے ووٹ سے نہیں ہوتا۔ صدر کے چناؤ کا فیصلہ ایک ایسے نظام کے ذریعے ہوتا ہے جس کے دو مراحل ہیں۔
پہلے مرحلے میں رائے دہندگان مندوبین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور جس بھی امیدوار کی حمایت کرنے والے مندوبین کی تعداد زیادہ ہو وہ وائٹ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اس نظام کے تحت ریاست کی سطح پر ڈالے گئے ووٹوں کے بعد الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے اور پھر یہ الیکٹورل کالج یا مندوبین صدر کو منتخب کرتے ہیں۔
امریکی نظام کے تحت ہر ریاست میں اس کی آبادی کے تناسب سے الیکٹرز کی تعداد مخصوص ہے اور 48 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں جس جماعت کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں، اس ریاست سے اس پارٹی کے تمام الیکٹرز کامیاب تصور ہوتے ہیں۔ یعنی عام عوام کے ووٹ سے یہ الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے۔ البتہ ریاست مین اور نیبراسکا میں قوانین مختلف ہیں اور وہاں ووٹوں کے تناسب سے الیکٹرز دونوں جماعتوں کے درمیان تقسیم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
امریکہ میں ووٹرز تین نومبر کو ہونے والی پولنگ میں براہِ راست اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ البتہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال چکی ہے۔
تیکنیکی طور پر عام ووٹرز نے صدارتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا۔ بلکہ انہوں نے الیکٹرز یا مندوبین کو ووٹ دیا ہے۔ امریکہ کی 50 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے منتخب ہونے والے مندوبین کے الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد 538 ہے جن میں سے 270 الیکٹرز کی حمایت حاصل کرنے والا امریکہ کا صدر منتخب ہوتا ہے۔
اُن ریاستوں میں جہاں ٹرمپ پاپولر ووٹ جیتیں گے اُنہیں تمام الیکٹورل ووٹ ملیں گے جب کہ وہ ریاستیں جہاں جوبائیڈن پاپولر ووٹ اپنے نام کریں گے اس ریاست کے تمام الیکٹرز کے ووٹ انہیں ملیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں 304 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے۔ ہیلری کلنٹن کو 227 الیکٹرز کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ جب کہ ہیلری کلنٹن نے 2016 میں صدر ٹرمپ کے مقابلے میں 29 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ صدر بنے تھے کیوں کہ امریکہ کے آئین کے تحت قائم انتخابی نظام میں الیکٹرز کی تعداد کی بنیاد پر صدر کا تعین ہوتا ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں امیدواروں کے لیے ریاست فلوریڈا سب سے اہم تصور کی جاتی ہے۔ کیوں کے اس میں 29 الیکٹورل ووٹ ہیں جو کہ ایک امیدوار کو ملتے ہیں۔ ریاست فلوریڈا میں 2016 میں الیکٹورل ووٹ صدر ٹرمپ کو ملے تھے۔ رواں برس میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ فلوریڈا میں صدر ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن میں سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔
الیکٹورل کالج میں سب سے زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے 55 ہیں۔ جب کہ اس کے بعد ٹیکساس کے 38 ووٹ ہیں۔ الی نوائے اور پینسلوینیا کے الیکٹرز کی تعداد 20، 20 ہے۔ اس کے علاوہ اوہایو میں 18، جارجیا اور مشی گن میں 16، 16 جب کہ ریاست نارتھ کیرولائنا کے الیکٹرز کی تعداد 15 ہے۔
الیکٹورل کالج کا اجلاس 14 دسمبر کو بلایا جاتا ہے تاکہ یہ تعین ہو سکے کہ امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا۔ الیکٹورل کالج ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کی کارروائی کو زیادہ توجہ بھی حاصل نہیں ہو پاتی۔ الیکٹورل کالج کے ووٹ چھ جنوری کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوتے ہیں۔
کئی ریاستیں ووٹ گننے کا عمل دنوں اور ہفتوں میں مکمل کرتی ہیں لیکن اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ ایسی ریاستیں جن کا ووٹ انتخابات کے نتائج مرتب کرنے میں فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے، وہ الیکشن کے بعد جلد از جلد نتائج مرتب کر کے ان کا اعلان کر دیں گی۔
امریکہ میں بڑی تعداد میں ووٹرز نے کرونا وبا کے باعث ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کر لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک نو کروڑ سے زائد افراد اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔
زیادہ تر امریکی ریاستیں اپنا وزن ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالتی ہیں۔ لیکن تقریباً ایک درجن کے قریب سوئنگ اسٹیٹس الیکشن کے نتیجے پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں کیوں کہ یہ ریاستیں دونوں جماعتوں میں سے کسی کے نام بھی ہو سکتی ہیں۔
ٹرمپ 270 کا جادوئی ہندسہ کیسے عبور کریں؟
ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کئی طرح سے 270 کے ہندسے تک پہنچ سکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے راستہ اس وقت زیادہ آسان ہوگا جب وہ فلوریڈا اور پینسلوینیا میں کامیابی اپنے نام کریں گے۔
اگر ان دونوں ریاستوں میں مندوبین ان کے ہوں اور وہ نارتھ کیرولائنا اور ایریزونا میں بھی جیت جائیں، جہاں 2016 کے الیکشن میں ان کو انتہائی معمولی برتری سے کامیابی ملی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جارجیا اور اوہایو بھی ان کے نام رہیں، جہاں اس وقت ان کا جو بائیڈن سے سخت مقابلہ ہے تو ان کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔
فلوریڈا کے 29 الیکٹرز صدر ٹرمپ کے لیے انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ اگر وہ فلوریڈا کے 29 الیکٹرز اپنے نام نہ کر سکے تو اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ مزید وائٹ ہاؤس کے مکین نہیں رہ سکیں گے۔
جوبائیڈن 270 تک کیسے پہنچیں گے؟
ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے امریکہ کی وسط مغربی ریاستوں خاص طور پر مشی گن، وسکانسن، اور پینسلوینیا پر زیادہ توجہ دی ہے کیوں کہ ان تینوں ریاستوں میں صدر ٹرمپ 2016 میں انتہائی معمولی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔
بائیڈن نے ایریزونا میں کامیابی کے لیے بھی بھرپور مہم چلائی ہے۔ اس ریاست سے 1996 سے ڈیموکریٹک امیدوار کامیاب نہیں ہوئے۔ انہوں نے فلوریڈا کے الیکٹرز اپنے نام کرنے کے لیے بھی دو گنی محنت کی ہے کیوں کہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جوبائیڈن کے فلوریڈا سے کامیاب ہونے پر صدر ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کا راستہ بند ہو سکتا ہے۔