افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد دولت اسلامیہ کے دہشت گرد گروپ کے افغان دھڑے اور القاعدہ تیزی کے ساتھ اپنی قوت میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں جو امریکہ اور مغرب کے خلاف حملوں کے اعتبار سے قابل تشویش ہے اور طاقت کا یہ حصول پچھلے اندازوں سے کہیں زیادہ مہلک ہو سکتا ہے۔
پینٹاگان کے تیسرے اعلیٰ ترین عہدے دار نے منگل کے روز قانون سازوں کو بتایا کہ تازہ ترین خفیہ معلومات سے پتا چلتا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان، جسے عام طور پر داعش خراسان کا نام دیا جاتا ہے، بیرون ملک کارروائی کے لیے تیزی سے زور پکڑتی جا رہی ہے، جب کہ القاعدہ کے دہشت گرد جنگجو بھی اپنے عزائم میں اس سے زیادہ پیچھے دکھائی نہیں دیتے۔
سینیٹ کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کے روبرو سماعت کے دوران، امریکی محکمہ دفاع کے نائب وزیر کولن کیل نے بتایا کہ ''القاعدہ اور داعش خراسان دونوں ہی بیرون ملک کارروائیاں کرنے کے عزائم کا دم بھرتے ہیں''۔
کیل کے کہا کہ ''ہمیں صاف پتا چلتا ہے کہ داعش خراسان چھ سے 12 ماہ کے اندر اپنی استعداد بڑھانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے؛ جب کہ اپنی صلاحیت بڑھانے کے کام میں القاعدہ کو ایک سے دو برس کا عرصہ لگ سکتا ہے''۔
یہ اندیشہ نیا نہیں کہ جوں ہی امریکی اور اتحادی فوجوں کا افغانستان سے انخلا ہو گا، دہشت گرد گروپ نئے سرے سے طاقت پکڑیں گے۔ کئی ماہ پہلے امریکی اور مغربی حکام متنبہ کرتے رہے ہیں کہ یہ گروپ امریکی فوج کی ملک میں غیر موجودگی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
حکام اور تجزیہ کاروں نے انتباہ جاری کیا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے چند ہی ماہ قبل خاص طور پر داعش خراسان افغانستان اور ہمسایہ ملکوں میں اپنے خفیہ نیٹ ورکس کو مضبوط بنا رہی ہے۔
حملہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی
لیکن، منگل کے روز قانون سازوں کو دی جانے والی خفیہ معلومات سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران داعش خراسان اور القاعدہ نے مزید تقویت حاصل کی ہے، جو وقت کے اعتبار سے تیز تر عمل ہے، جس کے بارے میں اس سے قبل پینٹاگان اور انٹیلی جنس کے حکام کا خیال تھا کہ اس کام میں چھ ماہ سے تین سال درکار ہوں گے۔
داعش خراسان سے لاحق خطرات کے بارے میں کیل نے قانون سازوں کو بتایا کہ ''میں نہیں سمجھتا کہ وہ ابھی اتنی طاقت ور ہے جیسا کہ اپنے عروج کے زمانے میں دولت اسلامیہ عراق اور شام میں ہوا کرتی تھی''۔ تاہم، انھوں نے خبردار کیا کہ اس دہشت گرد دھڑے کے دیگر دہشت گردوں کے عالمی نیٹ ورک کے ساتھ گٹھ جوڑ کا معاملہ تشویش کا باعث ہے۔
بقول ان کے، ''ان کے حلقے میں چند ہزار لوگ ہیں، جن میں سے چند بیرون ملک حملوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں خبردار رہنا ہو گا کہ داعش خراسان کا کوئی ذیلی دھڑا وسائل اور صلاحیت حاصل کر کے امریکی سرزمین پر باہر سے حملہ کر سکتا ہے''۔
کولن کیل کے انتباہ سے قبل دیگر اعلیٰ امریکی حکام اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ انھوں نے بھی خبردار کیا ہے کہ داعش خراسان رفتہ رفتہ زور پکڑتی جا رہی ہے۔
گزشتہ ماہ کانگریس کی ایک سماعت کے دوران، انسداد دہشت گردی سے متعلق امریکہ کی اعلیٰ ترین عہدے دار، کرسٹین ابی زید نے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے آخری دنوں میں حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مہلک حملے کے بعد داعش خراسان خبروں میں نمایاں ہو چکی ہے۔
ابی زید نے سوال کیا تھا کہ آیا ''یہ اپنا دھیان مغرب کے خلاف مرکوز کرے گی؟ یا اپنی زیادہ توجہ ہماری سرزمین کی جانب دے گی؟''
امریکی عہدے داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا، اس سے داعش خراسان کو بھی شہ ملی ہے، کیوں کہ اس وقت قیدخانوں کے دروازے کھول دیے گئے اور داعش کے ہزاروں جنگجوؤں اور ساتھیوں کو رہائی ملی۔
اگست میں طالبان نے افغانستان کے پروان قیدخانے کے دروازے کھول دینے کا بدنام عمل کیا، جس کا تذکرہ گزشتہ ماہ قانون سازوں کے سامنے سماعت کے دوران جنرل کینیتھ مکنزی نے کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے لئے امریکی افواج کے کمانڈر نے کہا تھا کہ ''اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ داعش خوشیاں منا رہی ہے''۔
دیگر امریکی اہل کاروں کے اندازے کے مطابق افغانستان کے عسکریت پسند نیٹ ورک میں داعش خراسان کے لڑاکوں کی تعداد کم از کم 2000 ہے، جب کہ چند غیر ملکی انٹیلی جنس اداروں نے یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی ہے۔