اپنی عمر کے لحاظ سے، بچے مختلف حادثات کا شکار ہو تے ہیں۔ اِن میں گِرنا، جلنا، زہریلی چیز کھانا یا پی لینا، کسی چھوٹی سی چیز کا سانس کی نالی میں پھنس جانا یا کسی اور وجہ سے دم گھٹنا، ڈوبنا، کرنٹ لگنا اور سڑک پہ ہونے والے حادثات شامل ہیں
کراچی —
ماں باپ اپنے بچوں کو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتے ہیں، جب کہ قومیں بچوں کو مستقبل کا معمار۔ لیکن، کم سنی کے دور میں، اِن بچوں کو اپنی ہی حفاظت اور بقاٴ کے لئے بڑوں کا سہارا اور تحفظ حاصل کرنا لازم ہے۔
اِس ضمن میں، بچوں کی بہتر نشو نما سے متعلق معلومات پر مبنی ایک کتاب میں والدین کی راہنمائی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر بنجامن اسپاک کی اِس کتاب، ’ڈاکٹر اسپاکس بے بی اینڈ چائلڈ کیر‘ کے مطابق، والدین اپنے بچوں کو پیار، تربیت، تعلیم اور تفریح سب کچھ دے دیں، لیکن، اگر تحفظ نہ دے سکیں تو سب کچھ بے کار ہے۔
کتاب کے مطابق، بچوں میں نفسیاتی صحت کی ابتدا اِس احساس سے ہی ہوتی ہے کہ کوئی بڑا ہے جو اُن کا تحفظ کرے گا۔ دراصل، تحفظ ہی انسانی جبلت کا محور ہے۔ کوئی خطرہ ہو، تو بچہ روتا ہے اور بڑا اسے گود میں اٹھا لیتا ہے۔
’ڈاکٹر اسپاکس بے بی اینڈ چائلڈ کیر‘ کے مطابق، ایک سال سے بڑی عمر کے بچوں میں تمام بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ اموات غیرارادی ضرر سے ہوتی ہیں، اور والدین کو یہ بتانے کا مقصد انھیں ڈرانا نہیں، بلکہ احتیاط پہ زور دینا ہے۔ کیونکہ، بچوں کو لاحق تمام خطرات کے باوجود، عوام میں حادثات سے بچاوٴ کے بارے میں آگہی بڑھنے سے بچوں کی حادثاتی اموات میں کمی آئی ہے۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر لوگ جسے حادثہ تصور کرتے ہیں، جِن سے بچاؤ کے لئے وہ کچھ نہیں کرپاتے۔ دراصل، یہ حادثات نہیں ہوا کرتے، کیونکہ بڑے اُن کی وجوہات کا ادراک رکھتے ہیں، جب کہ ناسمجھی کی بنا پر، بچے اُن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
’ایمرجنسی میڈیسن‘ کے ماہر اور ڈاکٹروں اور عوام کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دینے والے معالج، ڈاکٹر سید وہاج جنیدی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ پاکستان میں طبی وسائل کا ایک بڑا حصہ حادثات پہ استعمال ہو جاتا ہے۔ اور، ملک میں ابتدائی طبی امداد کے بارے میں عام لوگوں میں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے مریض کا خیال رکھنے والے پیشہ ور لوگوں میں تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ، حادثے کے پہلے گھنٹے کے اندر اندر، زخمیوں کو مناسب طبی امداد نہ ملنے کے باعث، پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور اموات بڑھ جاتی ہیں۔
ڈاکٹر جنیدی کا کہنا تھا کہ بچے اپنی عمر کے حساب سے مختلف حادثات کا شکار ہو سکتے ہیں، جِن میں گِرنا، جلنا، زہریلی چیز کھانا یا پی لینا، کسی چھوٹی چیز کا سانس کی نالی میں پھنس جانا یا کسی اور وجہ سے دم گھٹنا، ڈوبنا، کرنٹ لگنا؛اور اِس کے علاوہ، سڑک پہ ہونے والے حادثات شامل ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بچوں کو گِرنے، کٹنے، کرنٹ لگنے، جلنے، ڈوبنے یا چھوٹی چیزیں منہ میں لینے جیسے خطرات سے بچانے کے لئے اپنے گھر کو بچوں کے حساب سے محفوظ بنانے، گھر کے اندر اور باہر اُن کی مناسب سرپرستی کرنے اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت لینے سے بچوں کی حادثاتی اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
اِس ضمن میں، بچوں کی بہتر نشو نما سے متعلق معلومات پر مبنی ایک کتاب میں والدین کی راہنمائی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر بنجامن اسپاک کی اِس کتاب، ’ڈاکٹر اسپاکس بے بی اینڈ چائلڈ کیر‘ کے مطابق، والدین اپنے بچوں کو پیار، تربیت، تعلیم اور تفریح سب کچھ دے دیں، لیکن، اگر تحفظ نہ دے سکیں تو سب کچھ بے کار ہے۔
کتاب کے مطابق، بچوں میں نفسیاتی صحت کی ابتدا اِس احساس سے ہی ہوتی ہے کہ کوئی بڑا ہے جو اُن کا تحفظ کرے گا۔ دراصل، تحفظ ہی انسانی جبلت کا محور ہے۔ کوئی خطرہ ہو، تو بچہ روتا ہے اور بڑا اسے گود میں اٹھا لیتا ہے۔
’ڈاکٹر اسپاکس بے بی اینڈ چائلڈ کیر‘ کے مطابق، ایک سال سے بڑی عمر کے بچوں میں تمام بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ اموات غیرارادی ضرر سے ہوتی ہیں، اور والدین کو یہ بتانے کا مقصد انھیں ڈرانا نہیں، بلکہ احتیاط پہ زور دینا ہے۔ کیونکہ، بچوں کو لاحق تمام خطرات کے باوجود، عوام میں حادثات سے بچاوٴ کے بارے میں آگہی بڑھنے سے بچوں کی حادثاتی اموات میں کمی آئی ہے۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر لوگ جسے حادثہ تصور کرتے ہیں، جِن سے بچاؤ کے لئے وہ کچھ نہیں کرپاتے۔ دراصل، یہ حادثات نہیں ہوا کرتے، کیونکہ بڑے اُن کی وجوہات کا ادراک رکھتے ہیں، جب کہ ناسمجھی کی بنا پر، بچے اُن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
’ایمرجنسی میڈیسن‘ کے ماہر اور ڈاکٹروں اور عوام کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دینے والے معالج، ڈاکٹر سید وہاج جنیدی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ پاکستان میں طبی وسائل کا ایک بڑا حصہ حادثات پہ استعمال ہو جاتا ہے۔ اور، ملک میں ابتدائی طبی امداد کے بارے میں عام لوگوں میں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے مریض کا خیال رکھنے والے پیشہ ور لوگوں میں تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ، حادثے کے پہلے گھنٹے کے اندر اندر، زخمیوں کو مناسب طبی امداد نہ ملنے کے باعث، پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور اموات بڑھ جاتی ہیں۔
ڈاکٹر جنیدی کا کہنا تھا کہ بچے اپنی عمر کے حساب سے مختلف حادثات کا شکار ہو سکتے ہیں، جِن میں گِرنا، جلنا، زہریلی چیز کھانا یا پی لینا، کسی چھوٹی چیز کا سانس کی نالی میں پھنس جانا یا کسی اور وجہ سے دم گھٹنا، ڈوبنا، کرنٹ لگنا؛اور اِس کے علاوہ، سڑک پہ ہونے والے حادثات شامل ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بچوں کو گِرنے، کٹنے، کرنٹ لگنے، جلنے، ڈوبنے یا چھوٹی چیزیں منہ میں لینے جیسے خطرات سے بچانے کے لئے اپنے گھر کو بچوں کے حساب سے محفوظ بنانے، گھر کے اندر اور باہر اُن کی مناسب سرپرستی کرنے اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت لینے سے بچوں کی حادثاتی اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔