جاپان کے سائنس دانوں نے اپنی تازہ ریسرچ میں پہلی بار یہ پتا چلایا ہے کہ موسیقی چوہوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔وہ بھی انسانوں کی طرح اچھی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسے سن کر انسانوں کی طرح سر تونہیں دھنتے لیکن اپنے جسم کو حرکت ضرور دیتے ہیں اگرچہ یہ حرکت بہت معمولی ہوتی ہے ۔
انسانی زندگی میں موسیقی کی اہمیت سے کسے انکار ہے ؟ کون ہے جو اچھی موسیقی سن کر خوشی اور سکون محسوس نہیں کرتا ۔ انسانوں پر موسیقی کے سحر کن اثرا ت نے سائنس دانوں کو موسیقی کے متعدد پہلووں پر ریسرچ پر آماد ہ کیا اور یوں انہیں معلوم ہوا کہ موسیقی ذہن کے لیے سکون کا باعث ہوتی ہے ۔ موسیقی ہمارے جذبات کو متاثر کرتی ہے ۔ یہ ہمیں ذہنی دباؤ سے نجات دیتی ہے ۔ موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔ موسیقی دماغی علاج کے لیے تھیراپی کا ایک موثر ذریعہ ہے ۔ اچھی موسیقی ایک صحت مند انسان کے لیے ایک صحت مند تفریح کا ذریعہ ہے۔ اچھی موسیقی دماغی صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
موسیقی کے انسانوں پر اتنے بہت سے اثرات دیکھنے کے بعد سائنس دانوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی کہ آیا موسیقی دوسرے جانداروں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
متعدد ریسرچز سے انہیں یہ شواہد ملے کہ موسیقی پودوں اور جانوروں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ انہیں معلوم ہوا کہ اچھی موسیقی پودوں کی تیز اور صحت مند افزائش کا باعث بن سکتی ہے۔ انہیں اس بارے میں بھی شواہد ملے کہ موسیقی گائے بھینسوں کے دودھ میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے ۔
لیکن ان تمام ریسرچز سے ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہو سکا تھا کہ پودے یا جانور موسیقی سے کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیا موسیقی کے قریب موجود پودے موسیقی کے دوران کسی قسم کی حرکت کرتے ہیں یا کیا جانور بھی انسانوں کی طرح موسیقی سنتے ہوئے اپنے سر یا جسم کے کسی حصے کو موسیقی کی تھاپ پر حرکت دیتے ہیں ۔
یہ تھا وہ پہلو جس پر جاپان کے سائنس دانوں نے ریسرچ کی اور پہلی بار یہ پتا چلایا کہ موسیقی چوہوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔وہ بھی انسانوں کی طرح اچھی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسے سن کر انسانوں کی طرح سر تونہیں دھنتے لیکن اپنے جسم کو حرکت ضرور دیتے ہیں اگرچہ یہ حرکت بہت معمولی ہوتی ہے ۔
SEE ALSO: پوپ گانے کا دور گزر گیا ’پرانی جینز‘ والا علی حیدرٹوکیو یونیورسٹی کے محققین نے چوہوں کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت کا پتا چلانے کے لیے انہیں چھوٹے سینسرز لگائے اور ان کے سامنے امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا کا نغمہ ، 'بورن دس وے' Born This Way پلے کیا ۔
انہیں معلوم ہوا کہ چوہوں میں دلکش موسیقی کی تھاپ سے اپنی حرکات کو ہم آہنگ کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہے، جسے اس سے پہلے صرف انسانوں ہی کا خاصا سمجھا جاتا تھا ۔
اس ریسرچ کی ٹیم کے ایک رکن ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیروکازو تاکاہاشی نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں اپنی تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا کہ چوہوں کے دماغ موسیقی پر اپنا ردعمل اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے ظاہر کر سکتے ہیں اگرچہ یہ حرکات بہت معمولی ہوتی ہیں ۔
حال ہی میں جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی اپنی ریسرچ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ہیرو کازوتا نے مزید کہا کہ ہم سب مانتے ہیں کہ موسیقی میں جادوئی طاقتیں ہیں، لیکن ہم اس کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ لہذا ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ جذبات یا یادداشت کے اثر کے بغیر، کس قسم کے صوتی کنکشن دماغ کو اپیل کرتے ہیں۔ اور وہ کون سی تھاپ ہے جس پر چوہے اپنا رد عمل جسمانی حرکات کی صورت میں ظاہر کر سکتے ہیں ۔
حیرت انگیز طور پر انہیں معلوم ہوا کہ چوہے بھی انسانوں کی طرح موسیقی کی 120-140 بیٹ فی منٹ کی رینج میں اپنی جسمانی حرکات ظاہر کرتے ہیں ۔
SEE ALSO: موسیقی روح اور جسم دونوں کے لیے اچھی ہے: رپورٹتاکا ہاشی کا کہنا تھا کہ موسیقی میں بہت طاقت ہوتی ہے ۔ وہ ہمارے دماغ کے سمعی سسٹم تک پہنچ کر رد عمل کے طور پر موٹر سسٹم کو فعال کرکے جسمانی حرکات کو جنم دیتی ہے ۔
اس ریسرچ میں بنیادی طور پر موزارٹ موسیقی کے دو ٹکڑے استعما ل کیے گئے تھے جنہیں چار مختلف ٹیمپوز میں چلایا گیا
لیکن سائنس دانوں نے تاکا ہاشی کے طالب علموں کے چنے ہوئے "Born This Way" اور لیڈی گاگا کے "Anther One Bites the Dust" کے ٹریکس کو بھی آزمایا۔
دوسرے پالتو جانوروں مثلاً طوطے کے برعکس، جو موسیقی اور دیگر آوازوں کی غیر معمولی نقل کے لیے مشہور ہیں، یہ پہلا موقع تھا جب ریسرچ میں شامل چوہوں نے موسیقی سنی تھی۔
SEE ALSO: رنگ برنگے پرندوں کی سریلی بولیوں سے گونجتی کراچی کی ’پرندہ مارکیٹ‘تاکاہاشی نے کہا کہ وہ مستقبل میں، تال سے آگے بڑھ کر دماغ پر راگ اور ہم آہنگی کے اثرات کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
ان شواہد نے سائنس دانوں کو اس قیاس پر راغب کیا ہے کہ آیا دوسرے جاندار بھی اس قسم کی موسیقی پر ایسا ہی رد عمل ظاہر کر سکتے ہیں ۔
تاکا ہاشی کا کہنا ہے کہ اگر موسیقی کا جذباتی اثر ہوتا ہے تو یہ واقعی دلچسپ ہوگا اگر ہم اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں ہم اسے جانوروں میں دیکھ سکتے ہوں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے حاصل کی گئی ہیں۔