جمعے کا روز عمران خان کے لیے ریلیف کی اُمیدیں رکھنے والے اُن کے وکلا کے لیے مشکل دن ثابت ہوا۔ سردار لطیف کھوسہ بھی لگ بھگ 45 منٹ تک لفٹ میں پھنسے رہنے کے بعد بے حال نظر آئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کی علالت کے باعث سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی اپیل پر سماعت شروع ہوئی تو کمرۂ عدالت گزشتہ روز کی طرح بھرا ہوا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آج شاید عمران خان کے حق میں کوئی فیصلہ آ ہی جائے۔ عمران خان کی دو بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھیں۔
وکلا کے رش کی وجہ سے آج بھی کمرۂ عدالت میں حبس اور شدید گرمی تھی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے معاون عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ امجد پرویز کی طبعیت انتہائی خراب ہے، اس لیے میں پیش ہو رہا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ضمانت کا معاملہ چل رہا ہے، یہ بہت غلط بات ہے۔ اس پر معاون وکیل نے کہا کہ اس کیس میں میرا وکالت نامہ نہیں وگرنہ دلائل دیے جا سکتے تھے۔ معاون وکیل نے امجد پرویز کی بیماری کے حوالے سے کہا کہ ایسا تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
لطیف کھوسہ ایک دم غصے سے بولے کہ “جی نہیں، ایسا کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ میری کل طبعیت خراب تھی لیکن میں آیا۔"
SEE ALSO: عمران خان کے خلاف مقدمات: ریاست سے جنگ چھیڑنے کی دفعات بھی شاملمعاون وکیل نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ایک بار بھی التوا نہیں مانگا۔ امجد پرویز کے لیے ڈاکٹر نے بیڈریسٹ تجویز کیا ہے۔ اس وجہ سے وہ آرام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس اس وقت اہم مرحلے پر ہے۔ امجد پرویز آتے تو اگلے 15، 20 منٹ میں دلائل مکمل ہو جانے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عام طور پر جمعے کو دو ججز پر مشتمل ڈویژن بینچ نہیں ہوتا اور ہم گزشتہ روز کیس کو پیر تک ملتوی کر سکتے تھے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔
اس دوران پی ٹی آئی کے وکلا سخت غصے میں نظر آ رہے تھے اور آپس میں مشورہ بھی کرتے رہے کہ کیا کیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکلا ونگ نے گزشتہ روز جمعے کی سماعت کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کو بھرپور شرکت کے لیے دعوت دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کئی ایسے وکلا بھی نظر آئے جو پہلے ہائی کورٹ میں نظر نہیں آئے تھے۔
اس دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس پیر کی صبح تک ملتوی کرنے کا کہا اور ساتھ ہی کہا کہ اگر کوئی بھی نہ آیا تو ہم اپنے سامنے موجود اب تک کی دستاویزات اور شواہد کے مطابق فیصلہ سنا دیں گے۔
چیف جسٹس نے کیس ملتوی کرنے کا کہا تو لطیف کھوسہ جذباتی انداز میں بولے کہ آپ پھر عمران خان کو مزید تین دن اندر رکھیں گے؟ اگر آپ نے ایسا کرنا ہے تو پھر ہم عدالت میں پیش نہیں ہوں گے، آپ نے جو کرنا ہے کریں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم بھی ٹرائل کورٹ والا کام کر سکتے ہیں کہ ایک فریق پیش نہ ہو تو اسے سنے بغیر فیصلہ سنا دیں لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔
لطیف کھوسہ بولے کہ ایک شخص 20 روز سے جیل میں ہے اور آپ اللہ کو جواب دہ ہیں۔ ہم نے صرف معاونت ہی کرنا تھی۔
لطیف کھوسہ نے کہا مائی لارڈ یہ ناانصافی ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے روسٹرم چھوڑ دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ ایک شخص کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ہم اس کیس کو پیر کو سنیں گے۔
اس کے بعد ججز اٹھ کر اپنے چیمبر کی طرف چلے گئے اور کمرۂ عدالت میں موجود وکلا کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور انہوں نے 'فکسڈ میچ' اور 'شیم شیم' کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔
یہ نعرے بازی کمرۂ عدالت کے اندر جاری رہی اور اس دوران بعض سینئر وکلا اور کمرے میں موجود پولیس اہل کاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن نوجوان وکلا کسی کے قابو میں نہ آئے۔
ہم بھی کمرۂ عدالت سے باہر نکلے اور گرمی کے باعث لفٹ میں جانے کے بجائے سیڑھیوں کے ذریعے ہی گراؤنڈ فلور تک جانے کا فیصلہ کیا تو اچانک شور اٹھا کہ لطیف کھوسہ اور وکلا لفٹ میں پھنس گئے ہیں۔
لطیف کھوسہ کے ساتھیوں نے لفٹ کی خرابی کو قاتلانہ سازش قرار دیا، اس دوران لفٹ آپریٹر کوئی بھی نہیں تھا اور ہائی کورٹ کا عملہ بھی شاید نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جا چکا تھا۔
اس وجہ سے 12 بجے کے قریب بند ہونے والی لفٹ کھولنے کے لیے کوئی 45 منٹ بعد ریسکیو 1122 کی سی ڈی اے کی ٹیم پہنچی اور انہوں نے دروازوں کو کھول کر لطیف کھوسہ اور باقی افراد کو باہر نکالا۔
اس دوران پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے لوہے کی راڈز کے ذریعے لفٹ کا دروازہ کھولنے کی کوشش لیکن ناکام رہے جس پر چھوٹی سی درز کے ذریعے لفٹ کے اندر پانی کی بوتلیں پہنچائی گئیں اور ایک پنکھا بھی لگایا کہ اندر موجود افراد کو سانس لینے میں مشکل نہ ہو۔
45 منٹ کے بعد سی ڈی اے کے ریسکیو عملے نے کچھ منٹوں میں تمام پھنسے ہوئے افراد کو نکال لیا ۔ جب پسینے میں شرابور تمام افراد باہر نکلے تو لطیف کھوسہ نے ہانپتے ہوئے کہا “بہت کوشش کر لی گئی لیکن میں پھر بھی بچ گیا۔”