چین کے خود مختار علاقے تبت میں سیاحوں کی بڑھتی تعداد سے علاقے کے ماحول اور تاریخی مقامات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ مقامی شہریوں کو چینی سیاحوں سے تبتی ثقافت کے عدم احترام کا بھی شکوہ ہے۔
خبر رساں ادارے، 'اے پی' کے مطابق عالمی وبا کرونا وائرس کے سبب دنیا بھر میں سفری پابندیوں اور مشکلات کی وجہ سے بڑی تعداد میں چینی سیاح اندرونِ ملک سفر کو ترجیح دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے تبت میں مقامی سیاحوں کا رش کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
ہیڈ ایڈمنسٹریٹر گونگر تاشی نے اے پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ان کی توجہ علاقے میں سیاحوں کی دلچسپی اور قدیم ثقافتی ورثے کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے پر مرکوز ہے۔
اے پی کے مطابق، انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دلائی لامہ کی سابقہ رہائش گاہ 'پوٹالہ پیلس' پر ایک دن میں پانچ ہزار سے زائد سیاحوں کے آنے پر پابندی ہے تاکہ پہاڑوں کی اونچائی پر بنی اس وسیع و عریض عمارت کو کسی ممکنہ ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے یہ بات تبت کے خصوصی دورے پر مدعو کیے گئے غیر ملکی صحافیوں سے کہی، جن کا دورہ حکام کے زیرِ نگرانی تھا بلکہ اس کے لیے ایجنڈا بھی طے کیا گیا تھا۔
دوسری جانب یہاں آنے والے سیاح بھی تبت کی متنازع سیاسی حیثیت اور ماحول سے بظاہر لا تعلق نظر آتے ہیں۔
SEE ALSO: چین کے سرمایہ کار نے 'ٹائٹینک' جہاز بنوانا شروع کر دیاانیس سو اکیاون میں چین کی افواج تبت میں در آئی تھیں اور کچھ ہی سال بعد 1959 میں تبت کی خود مختاری کے لیے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد تبت کے روحانی اور سیاسی سربراہ جنہیں روایتی طور پر ’دلائی لامہ‘ کہا جاتا ہے، بھارت فرار ہو گئے تھے۔
یونی ورسٹی آف کولوراڈو میں جغرافیہ کی پروفیسر ایملی یہہ نے 'اے پی' سے بات کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ تبت کا سیاحتی شعبہ چینی پروپیگنڈا مشینری کا حصہ ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کا یہ کہنا کہ لاکھوں مذہبی غلاموں کو آزادی مل پائی ہے اور علاقے میں ترقی آئی ہے، تاریخ کو نیا رخ دینے کی کوشش ہے۔
پروفیسر ایملی یہہ کا کہنا ہے کہ مقامی افراد چینی سیاحوں سے پریشان نظر آتے ہیں۔ جہاں انہیں سیاحوں سے مقامی روایتی ثقافت کو نظر انداز کرنے کا شکوہ ہے وہیں انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ سیاح دعائیہ پرچموں پر پَیر رکھ کے گزر جاتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ تبت کی مقامی آبادی 35 لاکھ ہے جب کہ یہاں ہر سال آنے والے سیاحوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔
چینی ٹورازم مارکیٹنگ ایسوسی ایشن کے مطابق 2020 میں اس تعداد میں بارہ اعشاریہ چھ فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، سال 2026 تک یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد دو گنی ہو جائے گی۔
تبت میں ایسا کیا ہے جو سیاح یہاں کھنچے چلے آتے ہیں؟
نیو یارک یونی ورسٹی شنگھائی سے وابستہ ثقافتی جیوگرافر ٹریوس کلنگ برگ کا کہنا ہے کہ اب تک برف سے ڈھکی چوٹیوں کے درمیان دور افتادہ علاقوں میں بسے تبت کی پراسراریت اور روحانیت سیاحوں کو اپنی جانب مائل کرتی تھی۔
ان کے بقول، مگر اب تبت ایسے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی بن گیا ہے جو کچھ دن قریب ہی کسی خوبصورت اور پُرفضا مقام پر وقت گزارنا چاہتے ہوں۔
SEE ALSO: ہنگری: سماجی فاصلے کے ساتھ ہوا میں معلق منفرد ریستورانتبت کی سب سے مقبول جگہ برف سے ڈھکی چوٹیوں کے درمیان واقع 'نامتسو' جھیل ہے جب کہ اطراف میں موجود بدھ مزارات، گھاس چرتے پہاڑی بیلوں کے ریوڑ اور فضا میں اڑتے ہجرت کرتے پرندوں کا دلکش منظر سیاحوں کا دل موہ لیتا ہے۔
چینی ٹورازم مارکیٹنگ ایسوسی ایشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر گے لی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سیاحوں میں تبت کی کشش برقرار رکھنے کے لیے یہاں طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ان کے نزدیک سیاحوں کی سہولت کے لیے ترقیاتی منصوبے بناتے وقت یہ خیال رکھنا ہوگا کہ اس سے علاقے کا حسن خراب ہو نا ہی یہاں کے ثقافتی ورثے یا ماحول کو کوئی نقصان پہنچے۔