پاکستان کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آنے والے سامان پر 10 فی صد پروسیسنگ فیس عائد کرنے پر دونوں طرف کے تاجروں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کسٹم نے منگل کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا تھا جس میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے سامان کی ترسیل پر 10 فی صد پروسسینگ فیس عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان کی پاکستان میں اسمگلنگ کو روکنے اور اس عمل کے نتیجے میں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے تدارک کے لیے لیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں لیا گیا ہے کہ جب حکومت نے حال ہی میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی ہے۔
'تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے'
پاکستان اور افغانستان کے تاجروں نے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ جلد بازی کے اس فیصلے سے دو طرفہ تجارت اور تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر ضیاء الحق سرحدی کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت نے یہ فیصلہ عجلت میں اور شراکت داروں سے مشاورت کے بغیر کیا ہے جس کے تجارتی و سفارتی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ کو روکنا اداروں کا کام ہے اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ اسے نہ روکا جائے۔
ان کے بقول ایران سے اسمگل ہو کر آنے والی اشیاء کا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کے بقول ماضی میں حکومت نے ایک مرتبہ 17 اشیا پر ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد پر پابندی عائد کی تھی جس سے صرف پاکستان ریلوے کو چار ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔
ضیاء الحق سرحدی کہتے ہیں کہ حکومت کے اس فیصلے سے کراچی پورٹ سے لے کر افغان سرحد تک اس کاروبار سے وابستہ افراد کو نقصان پہنچے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے یہ اقدام عالمی قوانین اور دو طرفہ معاہدوں کے بھی منافی ہے لہذا حکومت کو اس اقدام پر نظرِ ثانی کرنی ہو گی۔
'عالمی قوانین کے تحت پاکستان ٹیکس نہیں لگا سکتا'
افغانستان کے تاجر رہنما نقیب اللہ صافی کہتے ہیں کہ عالمی قوانین اور دو طرفہ معاہدوں کی روح سے پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس اقدام سے نہ صرف ٹرانزٹ ٹریڈ بلکہ دو طرفہ تجارت بھی متاثر ہو گی اور دونوں ملکوں کے تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
SEE ALSO: غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنے کا فیصلہ؛ افغان طالبان کی پاکستان سے نظرِثانی کی اپیلوہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو فوری فیصلے کے نفاذ کے بجائے مسائل پر افغان حکومت اور شراکت داروں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔
نقیب اللہ صافی کے بقول ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے پاکستان کی طرف سے لگائی جانے والی شرائط کو افغان تاجر پورا نہیں کر سکتے۔ لہذٰا اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ اس پر نظرِ ثانی کرے۔
کسٹم حکام کے مطابق پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہونے کے ڈکلیئریشن پراسیس کے دوران اشیا کی اصل قیمت کے حساب سے 10 فی صد فیس پیشگی ادا کرنا ضروری ہے۔
ان اشیا میں 10 اقسام کی مٹھائیاں، چاکلیٹس، 21 اقسام کے چمڑے اور کینوس کے جوتے، مختلف مشینری، نو اقسام کے کمبل، گھریلو ٹیکسٹائل اور 33 اقسام کے ملبوسات شامل ہیں۔