کوئی فرد اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا: وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ایکٹ میں شامل کئی دفعات کو خلافِ شریعت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا۔ جنس وہی ہو سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔جنس کا تعین غالب جسمانی اثرات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے جمعے کو خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے کہا کہ جنس کا تعین انسان کے محسوسات کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرانسجینڈز کی جنس کا تعین غالب جسمانی اثرات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہو گا۔اور زنانہ اثرات غالب ہونے کی صورت میں عورت۔

شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے سیکشن دو ایف، سیکشن تین اور سات کو خلاف شریعت قرار دیا ہے۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق ٹرانسجینڈر ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کر کے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا لیکن وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ مرد یا عورت خود کو اپنی بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہیں تو یہ غیر شرعی ہو گا۔

SEE ALSO: پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پر بحث, معاملہ ہے کیا؟

وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر شرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خواجہ سرا تمام بنیادی حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں۔ اسلام نے بھی خواجہ سراؤں کو تمام بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں۔

سن 2018 میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے 'ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ' میں ٹرانسجینڈر افراد کی تعریف متعین کرنے اور انہیں شناختی دستاویزات کے اجرا کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا تھا۔

لیکن اس بل بھی شامل ایک شق کی بنیاد پر اسے متنازع بنا دیا گیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'ٹرانسجینڈر ایکٹ میں ہم جنس شادیوں کی اجازت نہیں'

'وفاقی حکومت فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے'

دوسری جانب انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ عجلت میں سنائے گئے اس فیصلے کے مواد اور عمل نے وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت اور اہلیت کے بارے میں ایک مرتبہ پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وفاقی حکومت کے لیے لازمی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے۔

ان کے بقول انسانی حقوق کے محافظ ہمیشہ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کی بنائی گئی وفاقی شرعی عدالت کے خلاف کھڑے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ٹرانس پرسنز کے ساتھ اظہارِ یکجہتی جاری رکھیں گی۔

خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کا الزام ہے کہ ملک میں ایک منظم مہم کے تحت ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی جس کا آغاز 2018 میں پارلیمان سے منظور شدہ آئینی بل کی مخالفت سے ہوا اور بعد میں اس قانون کو گزشتہ سال وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا۔

تحفظِ حقوق خواجہ سرا بل میں جس شق پر سب سے زیادہ تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا وہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اس کے خیال، گمان یا زعم کے مطابق اسے ٹرانس جینڈر تسلیم کیا جائے۔

اس شق کی مخالفت کرنے والے اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ اس شق کے تحت اس سے قطعِ نظر کہ کوئی شخص پیدائشی طور پر مردانہ خصوصیات کا حامل تھا یا زنانہ، بلکہ وہ اپنے بارے میں جیسا گمان کرے یا وہ جیسا بننا چاہے اس کے دعوے کو تسلیم کرنا ہوگا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'ٹرانس جینڈر اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے روز جیتے اور مرتے ہیں'

ٹرانسجینڈر ایکٹ پر ہونے والی تنقید کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس قانون کی جن شقوں پر جو اعتراضات سامنے آئے ہیں ان پر وفاقی حکومت غور کر رہی تھی لیکن یہ معاملہ وفاقی شریعت کورٹ میں چلا گیا اور اب شریعت کورٹ جو فیصلہ کرے گی، وہی حتمی تصور ہوگا۔