امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی صدارت کا پہلا ماہ جدید امریکی تاریخ کا بدترین دور تھا۔ ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ 2024 کا انتخاب لڑ کر دوبارہ صدارت کے منصب پر فائز ہوں گے۔
اتوار کو ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں 'کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس' سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ صرف ایک ماہ کے مختصر عرصے میں ہم 'امریکہ فرسٹ' سے 'امریکہ لاسٹ' ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ "میں دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر سکتا ہوں۔" البتہ سابق صدر نے اپنی کوئی نئی جماعت بنانے کے امکان کو رد کر دیا۔
سابق صدر نے کہا کہ "میں مضبوط اور ہمت والے ری پبلکنز کی مہم چلاؤں گا تاکہ 2022 کے وسط مدتی انتخابات انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ری پبلکن اراکین منتخب کرا کر ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکیں۔"
چھ ہفتے قبل عہد صدارت سے سبک دوش ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے سیاسی خطاب میں مزید کہا کہ "میں سوچ رہا ہوں کہ 2024 ری پبلکن پارٹی کا صدارتی اُمیدوار کون ہو گا۔"
البتہ، اپنے نوے منٹ کے خطاب میں سابق صدر بار بار یہ تاثر دیتے رہے کہ وہی 2024 کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکنز کے اُمیدوار ہوں گے۔
سابق صدر نے اپنے حامیوں پر مشتمل ایک گروپ کے سروے کا حوالہ دیا جس میں 97 فی صد افراد نے اُن کے دوبارہ الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
قومی سطح پر کیے گئے حالیہ سروے کے مطابق صدر بائیڈن کو اپنے سابق ہم منصب ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت حاصل ہے جب کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد اُن کی مقبولیت کا گراف بتدریج نیچے آیا ہے۔
سابق صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر گزشتہ سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے قدامت پسند ججز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "اُن میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ دھاندلی کے دعووں کی سماعت کر سکیں۔"
خیال رہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی جانب سے دھاندلی کے لگ بھگ 60 الزامات کو مختلف عدالتوں نے مسترد کر دیا تھا۔
تین نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات میں صدر بائیڈن نے 232 کے مقابلے میں 306 الیکٹورل ووٹ لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی تھی۔ تاہم سابق صدر نے تاحال انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔
اپنی تقریر کے دوران سابق صدر نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اس واقعے میں ٹرمپ کے حامیوں نے اُس وقت کیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا جب اراکینِ کانگریس بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لیے جمع تھے۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایوانِ نمائندگان میں ٹرمپ کا اپنے حامیوں کو اس حملے کے لیے اُکسانے کے الزامات کے تحت مواخذہ بھی ہو گیا تھا۔ البتہ گزشتہ ماہ سینیٹ نے ٹرمپ کو ان الزامات سے بری کر دیا تھا۔ تاہم سات ری پبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اپنے خطاب میں ٹرمپ نے اُن 10 ری پبلکن اراکینِ ایوانِ نمائندگان اور سات سینٹرز کے نام بھی لیے جنہوں نے مواخذے کی کارروائی کے دوران اُن کے خلاف ووٹ دیے تھے۔ ٹرمپ نے مطالبہ کیا کہ ہمیں ان سب سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔
سابق صدر نے بائیڈن کے امیگریشن، عالمیٔ ادارہ صحت اور پیرس معاہدے میں شامل ہونے سے متعلق حکم ناموں پر بھی تنقید کی۔
وائٹ ہاؤس کا ردِعمل
وائٹ ہاؤس نے اپنے ردِ عمل میں سابق صدر کے اس خطاب کو مسترد کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان مائیکل گون نے کہا کہ صدر بائیڈن کی تمام تر توجہ کرونا وائرس کو کچلنے، اسکولوں کو کھولنے اور امریکیوں کو کام پر واپس لانے کی جانب مبذول ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے بھی ٹرمپ کے خطاب سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی توجہ سابق صدر کے خطاب سے زیادہ امریکیوں کے مسائل حل کرنے کی جانب ہے۔