امریکہ کے صدر کے ساتھ ہمیشہ ایک فوجی مددگار ایک بیگ اُٹھائے چلتا ہے جس میں جوہری ہتھیار چلانے کے لیے درکار لانچنگ کوڈز موجود ہوتے ہیں۔ صدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ جوہری جنگ کا حکم دیں یا دشمن کے اس طرح کے حملے کا جواب دیں۔
اب موجودہ صدر کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکینِ کانگریس نے وائٹ ہاؤس میں ایک خط بھجوایا ہے جس میں وہ اپنے ہی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس طرح کے یکطرفہ کلی اختیارات سے دست بردار ہو جائیں۔
ایوان کے 31 ڈیمو کریٹک اراکین کے دستخط شدہ ایک خط کے مطابق، کسی اہک فرد کو ایسے اختیار دینے سے "حقیقی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔"
خط میں کہا گیا ہے کہ "ماضی میں امریکہ کے صدور کی طرف سے یہ دھمکی آتی رہی ہے کہ وہ دوسرے ممالک پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ کریں گے یا انہوں نے ایسے طرز عمل کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے دوسرے عہدے دار صدر کے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔"
یہ خط لکھنے میں رکن کانگریس جمی پینیٹا اور ٹیڈ لیو نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ دونوں کا تعلق ریاست کیلی فورنیا سے ہے۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جوہری حملے کے احکامات سے پہلے نائب صدر اور ہاؤس اسپیکر جیسے عہدے داروں کی رضا مندی لی جائے۔
پینیٹا نے جمعرات کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میرے کولیگز اور میں نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اسٹرکچر کے از سر نو جائزے کی درخواست کر رہے ہیں تاکہ اس بات کا تعین ہو کہ ہم کس طرح جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اختیار کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ اس کا مقصد قومی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے نہ کہ اس کو خطرات سے دوچار کرنا۔"
ان کا کہنا ہے کہ ہم تجویز کر رہے ہیں کہ صدر جوہری ہتھیار چلانے کا حکم دینے سے قبل مکمل چھان بین کریں اور ماہرین کی آرا کے علاوہ مشاورت سے یہ فیصلہ کریں۔
یہ خط پیر کو وائٹ ہاؤس بھجوایا گیا، اس میں صدر کے پاس جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق مطلق اختیارات کا متبادل بھی تجویز کیا گیا ہے۔
چھ جنوری کو کپیٹل ہل پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے کے دو دن بعد ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی نے اپنے ڈیموکریٹس ساتھیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے جوائنٹس چیفس آف اسٹاف سے ان کے بقول "ذہنی طور پر غیر مستحکم صدر" کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے دور رکھنے سے متعلق بات کی ہے۔
پلوسی نے ایک خط میں کہا تھا کہ "اس غیر متوازن صدر کی صورتِ حال اس سے زیادہ خطرناک نہیں ہو سکتی اور ہمیں وہ سب کرنا چاہیے جو ہم اپنے امریکیوں کو ان کے اپنے ملک اور جمہوریت پر غیر متوازن حملے سے محفوظ بنانے کے لیے کر سکتے ہیں۔"
بائیڈن کے نام خط میں ڈیمو کریٹ اراکینِ کانگریس نے جن میں ہاؤس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے دو اراکین بھی شامل ہیں، فٹ نوٹ میں ٹرمپ کا نام لے کر حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سابق صدر رچرڈ نکسن کی اگست 1947 میں مستعفی ہونے سے پہلے ذہنی حالت سے متعلق تشویش کا اظہار بھی موجود ہے۔
پینیٹا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "چوں کہ ہمارے موجودہ نظام میں بنیادی نقائص موجود ہیں، جیسا کہ ہمارے سابق صدر نے اجاگر کیے. کانگریس کے اندر ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ انتطامیہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کرنے کے عمل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے اس پر نظر ثانی کرے۔"
لیوس کے بقول "ایک پرانا استدلال یہ تھا کہ صدر کو (جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا) اختیار دینا زیادہ محفوظ ہے کیوں کہ وہ انتخابی عمل سے گزر کر آتا ہے۔ لیکن اُن کے بقول ٹرمپ کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ ایک ان فٹ اور خطرناک شخص بھی درحقیقت امریکہ کے اندر اقتدار حاصل کر سکتا ہے۔"
لیوس کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ اُن کے ساتھ کشیدگی کے دنوں میں ٹرمپ نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا جو بٹن ہے وہ اس سے کافی بڑا ہے اور زیادہ طاقت ور ہے جو کم جونگ کے پاس ہے۔"
ری پبلکنز کا ردِعمل
جوہری ہتھیار چلانے کے صدر کے اختیارات میں تبدیلی کی تجویز پر ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے تین نمایاں ری پبلکن اراکین کانگریس نے تنقید کی ہے۔
اپنے بیان میں ری پبلکن اراکین لز چینی، مائیک راجر اور مائیک ٹرنر نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے صدر کے پاس یکتا اہلیت ہونی چاہیے کہ وہ ہمارے جوہری دفاعی طاقت کی کمان سنبھال سکیں۔
ان کے بقول ڈیموکریٹس کی خطرناک کوششیں ہمارے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے عمل کی تشکیل نو تجویز کرتی ہیں اور اس سے امریکیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اتحادیوں کی سلامتی کو بھی نقصان پہنچے گا۔"
تینوں ری پبلکن رہنماؤں کے مطابق ولادی میر پیوٹن اور شی جن پنگ اس بات سے خوش ہوں گے اگر امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس طرح کی پابندی اختیار کر لی۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اسکالر جان ماورر نے بھی صدر کے اختیار میں تبدیلی کی تجویز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ماورر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حریفوں کو معلوم ہو کہ وار ہیڈز خاص حالات میں اڑان بھر لیں گے۔ اس سے بھی زیادہ یہ بات ضروری ہے کہ امریکی اتحادیوں کی یقین دہانی کے لیے یہ باور کرانا ضروری ہے کہ امریکہ کے وار ہیڈز خاص حالات میں اپنے دفاع کے لیے چل جاتے ہیں۔
پروفیسر ماورر کے مطابق امریکی قوانین میں پہلے ہی ایسی شقیں موجود ہیں جو صدر کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اختیار کی نگرانی کر سکتی ہیں۔
ان کے بقول نائب صدر اور کابینہ کو اگر صدر کی ذہنی حالت کے بارے میں تشویش ہو تو وہ صدر کے اختیارات کو 25 ویں ترمیم کے تحت معطل کر سکتے ہیں، اس طرح صدر کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اہلیت بھی مؤثر انداز میں معطل ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب 'کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس' سے وابستہ سینئر فیلو انکٹ پانڈا کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں صدر کے پاس جوہری طاقت کے مطلق اختیار کی سمجھ تو آتی ہے لیکن اب وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔
ان کے بقول "سرد جنگ کے بعد کے ماحول اور بالخصوص صدر ٹرمپ کے بعد یہ اختیار ایک ذمہ داری بن چکا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا کہ صدر ممکنہ طور پر اس خط پر کیا ردِعمل دے سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم خط کے مخصوص متن پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ ان کے بقول صدر وسیع تر معاملات پر کانگریس سے رابطے میں رہتے ہیں۔