|
امریکہ کے صدارتی الیکشن 2024 سے قبل اگرچہ پرائمری مقابلے ابھی کئی ماہ جاری رہیں گے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منگل کو سپر ٹیوزڈے پر 15 ریاستوں میں پارٹی انتخابات میں ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن اور ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اپنی پوزیشن کو واضح طور پر مستحکم کر لیں گے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری مقابلوں میں اب تک صدر بائیڈن کو کسی بھی پارٹی امیدوار کی طرف سے کسی خاص چیلنج کا سامنا نہیں رہا اور وہ متوقع طور پر اپنی کامیابیوں کے تسلسل کو سپر ٹیوزڈے کے مقابلوں میں باآسانی بڑھائیں گے۔
دوسری طرف سابق صدر ٹرمپ ری پبلکن پرائمری سیزن میں غلبہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
سپر ٹیوزڈے کے مقابلوں کی شام یعنی پیر کو انہوں نے ریاست شمالی ڈکوٹا کے کاکس میں فتح حاصل کرکے اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وہ سپر ٹیوزڈے کے اہم ریاستوں کیلی فورنیا اور ٹیکساس سمیت کئی مقابلوں میں کامیاب رہیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی نظام کے تحت سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے لیے لازم ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں نامزدگی حاصل کرنے کے لیے پارٹیوں کے پرائمری مقابلوں میں کامیابی حاصل کریں۔
ان مقابلوں میں کامیابی کا تعین ڈیلی گیٹس کی کل تعداد کا 50 فی صد حاصل ہونے سے ہوتا ہے۔
کسی ڈیموکریٹک سیاست دان کو صدارتی امیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے تمام ریاستوں اور امریکی علاقوں کے کل ڈیلی گیٹس یا مندوبین میں سے 1968 کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ری پبلیکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے کسی امیدوار کا 1215 مندوبین کا جیتنا لازم ہے۔
بائیڈن کو درپیش چیلنج
اب تک کے تمام ڈیموکریٹک پرائمری مقابلوں میں صدر جو بائیڈن نے واضح برتری کے ساتھ فتح حاصل کی ہے اور مبصرین کے مطابق ان کا یہ رجحان جاری رہے گا۔
تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے کچھ لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے معاملے پر بائیڈن کے مؤقف کے خلاف احتجاج کے طور پر ڈیموکریٹک ووٹرز بائیڈن کی کھلم کھلا حمایت سے باز رہیں۔
ریاست مشی گن میں گزشتہ ہفتے بائیڈن 81 فی صد ووٹوں کے ساتھ فتح سے ہم کنار ہوئے۔
لیکن ڈیموکریٹک پرائمری میں 13 فی صد ووٹرز نے بائیڈن یا کسی اور امیدوار کے بجائے ’ان کمیٹڈ‘ یعنی غیر پابند کے طور پر اپنا ووٹ ڈالا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سلسلے میں ’آور ریوولوشن‘ (ہمارا انقلاب) کے نام کی ایک تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوزف گیوارگھیس کہتے ہیں کہ ریاست مشی گن سے بننے والے مومینٹم سے آگے ہم اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے تاکہ صدر بائیڈن کو دو ٹوک پیغام پہنچایا جائے کہ ہم فوری جنگ بندی چاہتے ہیں۔
ان کے بقول اگر ہم یعنی امریکہ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا تو بائیڈن امریکی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بائیڈن کی اسرائیل کی حمایت کے خلاف سرگرم عمل رہیں گے اور دوسری امریکی ریاستوں میں بھی ڈیموکریٹک ووٹرز کو قائل کریں گے کہ وہ بائیڈن کے حق میں ووٹ نہ ڈال کر اس پالیسی کی مخالفت کا اظہار کریں۔
تاہم اعلیٰ تعلیم کے ادارے ’ورجینیا ٹیک‘ میں سیاسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کیٹلن جیوئٹ کہتی ہیں کہ ڈیموکریٹک ووٹرز پرائمری مقابلوں میں تو بائیڈن کو پیغام دیں گے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتیں کہ نومبر کو بائیڈن بمقابلہ ٹرمپ الیکشن میں ووٹرز ایسا کریں گے۔
SEE ALSO: غزہ میں فضا سے امداد گرانے کا عمل جلد شروع کیا جا رہا ہے: صدر بائیڈنجیوئٹ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں یہ ایک علامتی معاملہ ہے۔ یہ ووٹرز کی صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کی غزہ اور اسرائیل میں صورتِ حال پر پالیسی پر غصے کا اظہار ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہم انتخابات سے سات ماہ دور ہیں۔ خاص طور پر اگر مقابلہ ٹرمپ اور بائیڈن کا ہوتا ہے، تو ڈیموکریٹک ووٹرز بائیڈن کی حمایت کریں گے کیوں کہ وہ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں دوبارہ نہیں دیکھنا چاہیں گے۔
ٹرمپ کی پارٹی پوزیشن
ابھی تک ٹرمپ کو صرف ایک پرائمری مقابلے میں شکست ہوئی ہے جب اتوار کو سابق امریکی سفارت کار اور ریاست جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر نکی ہیلی نے واشنگٹن ڈی سی میں ان کو ہرایا۔
منگل کے مقابلوں کے بعد 12 مارچ کو ہونے والے مقابلوں میں کامیابی ٹرمپ کو ری پبلکن ڈیلی گیٹس کی اتنی تعداد میں حمایت دلا دے گی کہ وہ پارٹی کی صدارتی انتخاب کے لیے نامزدگی حاصل کر سکیں۔
ہر چند کہ نامزدگی کے لیے پارٹی کا کنونشن ابھی چارہ ماہ دور ہے اور ابھی تمام 50 امریکی ریاستوں اور علاقوں کے نتائج بھی سامنے نہیں آئے ہوں گے۔
SEE ALSO: سپریم کورٹ: ٹرمپ کو پرائمری الیکشن سے روکنے کا فیصلہ کالعدمٹرمپ کو کئی عدالتی مقدموں کا بھی سامنا ہے ۔ پیر کو امریکہ کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سابق صدر کو الزامات کی بنیاد پر پرائمری مقابلوں کے بیلٹ سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پرائمری سیزن حیران کن حد تک مقابلے سے عاری ہے۔
جہاں تک ٹرمپ کا سوال ہے تو وہ ان ضوابط سے بھی مستفید ہو رہے ہیں جن کے تحت ری پبلکن پارٹی کے پرائمری مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ کو صدارتی استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں، سپریم کورٹ اپریل میں دلائل سنے گیپروفیسر جیوئٹ کے مطابق ری پبلکنز اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو ریاست کے تمام تر ووٹ دے دیتے ہیں نہ کہ انہیں مقابلے میں شامل امیدواروں میں تقسیم کیا جائے۔
ان کے خیال میں ٹرمپ سپر ٹیوزڈے کو اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے ان کی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
نکی ہیلی اب بھی ری پبلکن پرائمری میں موجود
ری پبلکن مندوبین کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے باوجود نکی ہیلی اب تک پارٹی کی پرائمری دوڑ میں شامل ہیں اور اب وہ ایک احتجاجی امیدوار کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
ان کا مدعا ہے کہ ٹرمپ صدارتی منصب کے لائق نہیں ہیں اور وہ سال 2020 کے انتخابات کی طرح ایک بار پھر بائیڈن سے شکست کھائیں گے۔
اب تک ہیلی نے ٹرمپ کے 244 کے مقابلے میں صرف 43 مندوبین کی حمایت حاصل کی ہے۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے خلاف نکی ہیلی کی پہلی کامیابی، سپر ٹیوزڈے پر 15 ریاستوں میں مقابلہسپر ٹیوزڈے کی ووٹنگ میں 865 مندوبین ہوں گے اور یہ فرق تیزی سے اور بھی بڑا ہونے کی توقع ہے۔
’نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی‘ میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جیم ڈومنگیوز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کو درپش متعدد مشکلات کے باوجود ہیلی اب بھی صرف اپنی مسلسل موجودگی سے ری پبلکن ریس پر نمایاں اثر ڈالنے کے قابل ہیں۔
ان کے بقول ہیلی کی موجودگی ٹرمپ کے لیے ایک کانٹے کی طرح ہے اور وہ دوڑ میں کوئی بڑا اثر دکھانے کے قابل تو نہیں ہوں گی لیکن وہ اہم معاملات پر اپنے مؤقف کے ذریعہ پیغام پہنچائیں گی۔