امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغانستان سے متعلق امریکہ اور طالبان کے درمیان "اچھی بات چیت" جاری ہے۔ لیکن, ساتھ ہی انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کا معاہدہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
منگل کو وائٹ ہاؤس میں رومانیہ کے صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا معاہدہ خود ان کے یا طالبان کے لیے قابلِ قبول بھی ہو گا یا نہیں۔
صدر ٹرمپ کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ روانہ ہوئے ہیں جہاں وہ طالبان کے ساتھ مجوزہ امن معاہدے پر دوبارہ بات چیت کریں گے۔
افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ چند ماہ کے دوران مذاکرات کے آٹھ ادوار ہو چکے ہیں۔
منگل کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران اس سوال پر کہ کیا طالبان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔"
صدر ٹرمپ نے اپنی گفتگو کے دوران افغانستان کو "دہشت گردوں کی ہارورڈ یونیورسٹی" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے انٹیلی جینس اثاثے اور اہل کار ہمیشہ افغانستان میں موجود رہیں گے, تاکہ افغانستان دوبارہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے پہلے کی حالت پر نہ جا سکے جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے ایک بار پھر اپنا یہ بیان دہرایا کہ وہ چاہیں تو غیر جوہری بم استعمال کر کے افغانستان سے دہشت گرد عناصر کا ایک لمحے میں خاتمہ کر سکتے ہیں. لیکن, ان کے بقول, وہ ایک کروڑ افغان شہریوں کا قتلِ عام نہیں کرنا چاہتے۔
افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ایک جانب تو امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن، دوسری طرف حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ عیدالاضحیٰ سے قبل امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا جائے گا۔ لیکن، 12 اگست کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ختم ہونے والے مذاکرات میں فریقین نے آئندہ کے لائحہ عمل پر مزید مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان اور امریکہ افغانستان میں امن اور وہاں تعینات غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے کئی ماہ سے مذاکرات میں مصروف ہیں اور کسی امن معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
افغان طالبان بھی مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی نوید سناتے رہے ہیں۔