|
امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو کہا ہے کہ وہ 'خلیج میکسیکو' کا نام تبدیل کر کے 'خلیجِ امریکہ' کردیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جس خلیج میکسیکو یا گلف آف میکسیکو کا نام تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں اسے امریکہ کی ’تھرڈ کوسٹ‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کی ساحلی پٹی امریکہ کی پانچ ریاستوں ٹیکساس، لوئزیانا، مسی سپی، الاباما اور فلوریڈا سے ملتی ہے۔
تاہم میکسیکو والے اس کے لیے ہسپانوی نام 'ال گولفو دی میکسیکو' ہی استعمال کرتے ہیں۔
گلف یا خلیج سمندر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو تین جانب سے خشکی سے گھرا ہو اور اس میں داخلے کا راستہ بھی ہو۔ عام طور پر خلیج میں داخلے کا راستہ تنگ ہوتا ہے۔
دنیا کے کئی خطوں میں پائی جانے والی خلیج جغرافیے کے ساتھ ساتھ اس خطے کے سیاسی اور اقتصادی حالات کا بھی تعین کرتی ہیں۔میکسیکو کے علاوہ خلیجِ فارس، خلیجِ عدن، خلیج عمان اور وغیرہ اس کی معروف مثالیں ہیں۔
نام بدلنے کا معاملہ کیا پہلی بار اٹھا ہے؟
خلیجِ میکسیکو کا یہ نام گزشتہ چار صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ نام اسے ایک مقامی امریکی شہر ’میکسیکو‘ کے نام پر دیا گیا تھا۔
سال 2012 میں مسی سپی کے ایک قانون ساز نے اپنی ریاست کے ساحل سے ملنے والے خلیج کے حصے کا نام تبدیل کر کے ’’گلف آف امریکہ‘‘ کرنے کا بل پیش کیا تھا۔
تاہم بعد میں خود ہی اسے ایک ’مذاق‘ قرار دے دیا تھا۔ یہ بل ریاست کے قانون ساز ایوان کی کمیٹی کو جائزے کے لیے بھجوایا گیا تھا لیکن اس کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔
کیا ٹرمپ نام تبدیل کرسکتے ہیں؟
منتخب صدر اپنے اعلان کے مطابق یک طرفہ طور پر تو گلف آف میکسیکو کو گلف آف امریکہ قرار دے سکتے ہیں لیکن دیگر ممالک پر یہ فیصلہ تسلیم کرنا لازمی نہیں ہوگا۔
انٹرنیشنل ہائیڈروگرافک آرگنائزیشن دنیا میں سمندروں اور قابل سفر واٹر باڈیز یا آبی خطوں کے سروے کرنے والی تنظیم ہے اور ان میں سے کئی کو نام بھی دیتی ہے۔
امریکہ اور میکسیکو دونوں ہی اس کے رکن ہیں۔ یہاں بھی کئی ایسی مثالیں ہیں جہاں مختلف ممالک اپنی دستاویزات میں ایک ہی آبی خطے یا لینڈمارک کا حوالہ مختلف ناموں سے دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جب کسی ملک کو اپنے ہی کسی مقام یا علاقے کا نام تبدیل کرنا ہو تو یہ آسان ہوتا ہے۔ مثلاً 2015 میں اس وقت کے صدر براک اوباما نے محکمہ داخلہ کو شمالی امریکہ کی بلند ترین پہاڑی چوٹی کا نام ماؤنٹ مکنلی سے تبدیل کرکے ’ڈینالی‘ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ٹرمپ نام کی تبدیلی کے اس فیصلے کو واپس لینے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔
منگل کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے فوری بعد ایوانِ نمائندگان کی جارجیا سے تعلق رکھنے والی رکن مارجری ٹیلر گرین نے ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عملے کو گلف آف میکسیکو کا نام بدلنے کے لیے قانون سازی کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت جاری کریں گی۔
ناموں پر تنازعات
جاپان، شمالی کوریا، جنوبی کوریا اور روس میں بحیرۂ جاپان کے نام پر دیرینہ تنازع پایا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا کا مؤقف ہے کہ کوریا پر جاپان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے یہ نام استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
انٹرنیشنل ہائیڈروگرافک آرگنائزیشن کے 2020 میں ہونے والے ایک اجلاس میں رکن ممالک نے ماڈرن جیو گرافک انفارمیشن سسٹم کے لیے خلیجوں کے نام کی جگہ انہیں نمبر دینے کے منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔
خلیجِ فارس کو سولہویں صدی سے اسی نام سے پکارا جاتا ہے اگرچہ مشرقِ وسطیٰ میں اس کے لیے صرف ’خلیج‘ اور خلیجِ عرب کے نام زیادہ مستعمل ہیں۔ 2012 میں ایران نے گوگل پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کی دھمکی دی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ کمپنی نے اپنے نقشے پر خلیجِ فارس کے نام کے ساتھ اس خطے کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
ٹرمپ کے علاوہ 2016 میں ان کی مدِ مقابل آنے والی ہیلری کلنٹن نے بھی آبی خطے کے نام کی تبدیلی پر بات کی تھی۔
وکی لیکس میں آنے والی ایک دستاویز کے مطابق 2013 میں ایک گفتگو میں ہیلری نے کہا تھا کہ چین کی منطق یہ ہے کہ جنوبی بحیرۂ چین پر صرف اس کا حق ہے، اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو امریکہ بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد بحر الکاہل کو ’امریکن سی‘ کا نام دے سکتا تھا۔
اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔