اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تین سے پانچ ہزار جنگجو افغانستان میں مو جود ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی رپورٹ میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد وہاں شدت پسندوں کی سرگرمیوں کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
افغانستان میں گزشتہ برس اگست میں افغان طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے ہر چند کہ افغان طالبان کی سہولت کاری کے سبب پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اور ان مذاکرات اور جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل افغانستان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے اور پاکستان کا الزام تھاکہ انہوں نے سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رکھے ہیں، جسے سابقہ افغان حکومت مسترد کرتی رہی۔ اس صورت حال میں پاکستان اپنی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کو غیر محفوظ خیال کر رہا تھا جس کی ا یک جانب بھارت اور دوسری جانب افغانستان تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کےبعد کئی ایک تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحدیں اسی طرح محفوظ ہو جائیں گی جیسا کہ ان کے بقول طالبان کے پہلے دور اقتدار میں تھیں۔
SEE ALSO: مشیرِ قومی سلامتی کا دورۂ افغانستان: کیا ٹی ٹی پی کے حملے بند ہونے کا امکان ہے؟لیکن اب صورت حال بظاہر ایسی نہیں ہے اور افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کے ذریعے ٹی ٹی پی کے حملوں کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ اور افغان طالبان بظاہر انہیں روکنے میں بےبس دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ وہ کئی بار عالمی برادری سے کیے جانے والے اپنے اس وعدے کو دہرا چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔سوال یہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو کیوں روک نہیں پا رہے اور کیا بعض تجزیہ کاروں کی اس رائے میں وزن ہے کہ ٹی ٹی پی ان کی اتحادی رہی ہے اور طالبان کی نچلی سطحوں کی قیادت میں ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے طالبان ان کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ کیا وہ افغان طالبان کے رویے کو نظر انداز کر دے اور اپنے طور پر ان جنگجوؤں کے خلاف ایک بار پھر اسی طرح بھرپور کارروائی کرے، جس طرح وہ اب سے چند سال قبل کر چکا ہے۔ کیا افغان طالبان مستقبل میں اس حوالےسے پاکستان کی توقعات پر پورے اتر سکیں گے؟ اور اگر نہیں تو کیا اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان آئندہ تعلقات میں سرد مہری یا کسی کشیدگی کا امکان ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں، تجزیہ کار جن کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب بھی ان ہی تجزیہ کاروں میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت افغان طالبان کو درپیش مشکلات کو بخوبی سمجھ رہا ہے۔ اور ان کی روشنی میں اس حوالے سے بعض فیصلے لینے ضروری ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہاں عام آدمی جن مسائل کا سامنا کررہا ہے اور جس مصیبت میں گرفتار ہے اور اس کی وجہ سے وہاں جو بے چینی پائی جاتی ہے، وہ کسی بھی وقت عوامی رد عمل کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور خانہ جنگی کی سی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔اس لیے ایسی صورت میں طالبان ٹی ٹی پی سمیت کسی بھی عسکری گروپ کو چھیڑ کر اپنے لیے ایک نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان بھی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ حالات میں طالبان پر کوئی دباؤ ڈالنے کی بجائے ان کی مدد کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ملکی مسائل حل کر سکیں اور پاکستان یہی کر رہا ہے۔
SEE ALSO: کیا بلوچستان میں دہشت گردی افغانستان سے بلوچ عسکریت پسندوں کی بے دخلی کا نتیجہ ہے؟افغانستان کی اندرونی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان نے ایک کام اچھی نیت سے کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان قوتوں کے نمائندے یا پراکسیز جو نہیں چاہتی تھیں کہ طالبان برسر اقتدار آئیں، کسی ڈر وخوف کے بغیر افغانستان میں موجود ہیں، بلکہ اپنی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس نے صورت حال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے، طالبان کے ساتھ مل کر کام کرےاور انتظار کرو اور دیکھو کے فارمولے پر عمل کرے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان میں صرف ایک ٹی ٹی پی ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دوسرے متعدد عسکریت پسند گروپ بھی سرگرم ہیں، جو خطے کے لیے خطرات پیدا کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
جنرل امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین کا دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال ہونا ایک کھلی حقیقت ہے۔ طالبان کو اقوام عالم سے کیے ہوئے اپنے وعدے کو پورا کرنے کےلیے آخر کار کچھ توکرنا ہی پڑے گا۔ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا اس وقت ان گروپوں میں سے سب سے زیادہ خطرہ ٹی ٹی پی سے پاکستان کو اور ایسٹ ترکستان تحریک سے چین کو لاحق ہو سکتا ہے۔ اور ان معاملات میں چین اور پاکستان کی سوچ ایک ہے اور وہ مل کر ہی اس صورت حال سے نمٹیں گے۔
نجم رفیق انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مفادات بھی افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان طالبان کی مجبوریوں سے بھی واقف ہے، اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کے طالبان سے تعلقات محض اس لیے کشیدہ ہو جائیں گے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو سرحد پار کرکے حملے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان اس وقت تک ان عسکری گروپوں کو پوری طرح سے کنٹرول نہیں کر سکتے جب تک وہاں مکمل امن قائم نہیں ہو جاتا۔ جو ابھی دور کی بات نظر آتی ہے کیونکہ بقول ان کے افغانستان اب عالمی گریٹ گیمز کا حصہ ہے اور کئی ملکوں کے مفادات وہاں داؤں پر لگے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر وہاں مکمل امن کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اس تناظر میں پاکستان کے پاس طالبان کی مدد اور حمایت کے علاوہ کوئی اور متبادل موجود نہیں ہے۔
ٹی ٹی پی اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
یہ تنظیم 2001 میں افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کی مسلح جدوجہد کا مقصد پاکستان میں ایک ایسے اسلامی سیاسی نظام کا قیام ہے، جو ان کی توضیح کردہ شریعت کے مطابق ہو۔
بعد ازاں اس تنظیم میں متعدد عسکریت پسند گروپ شامل ہو گئے اور مختلف جہادی گروپوں کی سرگرمیوں اور ان کے اتحاد سے ان کے حملہ کرنے کی قوت میں اضافہ ہوا، جس پر کنٹرول کے لیے فوج کو ایک بڑی کارروائی کرنا پڑی جس میں دونوں اطراف سے بھاری جانی نقصان ہوا اور کئی جنگجو افغانستان بھاگ گئے۔ اب یہ گروپ ایک بار پھر ہاکستان کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔
ایسٹ ترکستان تحریک آزادی یا ای ٹی آئی ایم
یہ ایغور عسکریت پسندوں کا ایک گروپ ہے۔ جو ایسٹ ترکستان کے نام سے شمال مغربی چین کے ایک خطے میں اپنا ایک الگ ملک بنانا چاہتا ہے۔ چین اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ مغرب کا الزام ہے کہ چین ایغور آبادی کے حقوق کی خلاف ورزی اور ان پر ظلم کرتا ہے جب کہ چین اس کی تردید اوراس تحریک کی مخالفت کرتا ہے۔