رسائی کے لنکس

کیا بلوچستان میں دہشت گردی افغانستان سے بلوچ عسکریت پسندوں کی بے دخلی کا نتیجہ ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی آ گئی ہے۔ جمعے کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہو گئے ہیں۔ دو روز قبل ضلع کیچ میں ایک حملے کے دوران 10 سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔

سینیٹر سرفراز بگٹی نے جمعے کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ سوئی کے علاقے مٹ میں ہونے والے حملے میں ان کے کزن سمیت چار افراد مارے گئے ہیں۔ ان کے بقول وفاقی و صوبائی حکومتیں عام شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو گئی ہیں۔

دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور خاص طور پر بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے قبول کی جا رہی ہے۔ماضی میں بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کا الزام پڑوسی ملک بھارت پر عائد کیا جاتا تھا۔ تاہم اس بار حکام اس کے تانے بانے پڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے جوڑ رہے ہیں۔

عسکریت پسندوں کی ان کارروائیوں کے بعد ملک میں یہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے کہ کیا افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے انخلا اور طالبان حکومت کے کنٹرول کے بعد پاکستان میں کالعدم تنظیمیں زیادہ مضبوط اور فعال ہو گئی ہیں۔

پچیس جنوری کو ضلع کیچ میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کی ذمے داری بلوچ لبریشن فرنٹ نامی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس حملے کے دو روز بعد 27 جنوری کو پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں حملے کی تصدیق کی تھی۔

بیس جنوری کو بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نامی عسکریت پسند تنظیم نے صوبہ پنجاب کے درالحکومت لاہور میں انارکلی بازار میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ بی این اے نے یہ کارروائی اپنی تنظیم کے قیام کے دس روز بعد کی تھی۔

بی این اے 19 جنوری کو بلوچستان کے ضلع آواران میں سیکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کر چکی ہے جس کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

بلوچستان عسکریت پسندوں کے حملوں کی زد میں کیوں ہے؟

گزشتہ سال سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے سمیت مختلف تنظیموں کے مابین آپس میں جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز (پی آئی پی ایس ) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں ملک میں خیبرپختونخوا کے بعد بلوچستان دہشت گردی سے متاثرہ دوسرا صوبہ ہے جہاں دہشت گردی کی 81 کارروائیوں میں 136 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

دہشت گردوں کی مذکورہ کارروائیوں میں 71 حملے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کیے گئے جن کا نشانہ زیادہ تر سیکیورٹی فورسز ہی رہیں۔

یہ حملے بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی، بلوچ ری پبلکن گارڈز، یونائیٹڈ بلوچ آرمی، لشکر بلوچستان اورچار علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کی جانب سے کیے گئے ہیں۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں حملوں کے لیے آئی ای ڈی بم، فائرنگ اور دستی بموں کا استعمال کرتی ہیں لیکن گزشتہ برس 20 اگست کو بلوچ لبریشن آرمی نے گوادر میں چینی انجینئروں اور کارکنوں کے قافلے پر خودکش حملہ کیا تھا ۔

پی آئی پی ایس کی سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سب سے زیادہ 19 حملے ضلع کیچ میں ہوئے جہاں ماضی میں بھی سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ کئی حملے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت سبی ، پنجگور اور بولان میں بھی کیے گئے۔

کیا افغانستان میں طالبان کی واپسی کے اثرات بلوچستان پر پڑ رہے ہیں؟

پی آئی پی ایس کے ڈائریکٹر اورسیکیورٹی امور کے تجزیہ کار محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کو بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے حملوں میں اضافے سے جوڑنا ابھی قبل از وقت ہے ْ۔ البتہ ایسا لگ رہاہے کہ طالبان پر افغانستان میں موجود بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے عسکریت پسندوں کی نقل مکانی کا دباؤ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وآئس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عامر رانا نے کہا کہ بلوچ تنظیمیں افغانستان کی موجودہ غیر یقینی صورت حال اوراس کے سبب پاکستان میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے ماحول کا بھرپورفائدہ اٹھا رہی ہیں۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اندرونی معاملات سے باخبر تربت کے سابق سیاسی عہدیدار قربان علی(فرضی نام)، عامر رانا سے اتفاق کرتے ہیں ۔

پاکستان: کیا نیشنل ایکشن پلان کے بعد انتہا پسندی میں کمی ہوئی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:37 0:00

قربان علی کالعدم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(آزاد)ے وابستہ رہے ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اصل نام شائع نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان نقل مکانی کرنے والے بلوچ خاندان طالبان حکومت کے کریک ڈاؤن کے بعد واپس بلوچستان لوٹ رہے ہیں۔

ان کے بقول، "اسلام آباد اور بیجنگ کی ایما پر افغانستان کے صوبے قندھار اور نمروز میں بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف طالبان حکومت نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ افغانستان میں ماضی کی حکومتیں اور افغان سیکیورٹی فورسز بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی۔"

یاد رہے کہ افغان صوبے قندھار اور نمروز کی سرحدیں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہیں۔ سال 2006 میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچ عسکری تنظیموں کے خلاف مختلف آپریشنز کے بعد عسکریت پسندوں کے سیکڑوں خاندان افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔

افغانستان میں بلوچ 'مہاجرین' کی گرفتاریوں پر تشویش

افغان طالبان کی جانب سے بلوچ 'مہاجرین' کے گھروں پرچھاپوں، گرفتاریوں،گاڑیوں اورمکانات کے قبضے کی خبریں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی حامی نیوز ویب سائٹوں پر وقتا فوقتا جاری ہوتی ہیں۔

اسلام آباد شروع سے ہی سابق افغان صدر اشرف غنی کی حکومت پر افغانستان کی سر زمین پر پاکستان مخالف بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو ٹھکانے اور مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران قندھار میں متعدد بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں کی ہلاکتیں اسلام آباد کے اس دعوے کی تائید کرتی ہیں ۔

ہلاک ہونے والے رہنماؤں میں بی ایل اے کے اپنے دھڑے کے سربراہ اسلم بلوچ عرف اچھو بھی شامل تھے جو اپنے چار ساتھیوں سمیت قندھار کے پوش علاقے عینومینا میں ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔

حکومتِ پاکستان نے اسلم بلوچ کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی اور وہ نومبر 2018 کے اواخر میں کراچی میں چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر مقدمات میں نامزد تھے۔

قربان علی نے بتایا ہے کہ افغانستان میں موجود بلوچ عسکریت پسندوں کو طالبان حکومت نے گرفتار کر کے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے بھی کیا ہے۔

'بلوچ ری پبلکن گارڈز' نامی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم کے سربراہ اوربلوچستان کے سابق صوبائی وزیر میربختیار ڈومکی نے گزشتہ برس اکتوبر میں جاری اپنے ایک بیان میں افغانستان میں مقیم بلوچ بزرگ رہنما ملک خان محمد مری اور دیگر مہاجرین کی گرفتاری اور ان پر مقدمات قائم کرنے کو گہری سازش قرار دیا تھا۔

میر بختیار ڈومکی نے طالبان قیادت سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے بجائے ایک ہمسائے کی طرح بلوچ مہاجرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

دہشت گردی میں مبینہ طورپرملوث ہونے کی بنیاد پر کالعدم قراردی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) نے گزشتہ برس اکتوبر میں جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر کے باعث افغانستان کے مختلف صوبوں میں پناہ اختیار کرنے والے ہزاروں بلوچ خاندانوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہیں۔

'عسکریت پسند تنظیمیں منظم ہو رہی ہیں'

بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن میں حصہ لینے والے سیکیورٹی افسران نے بھی صوبے میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے اضافے کی تصدیق کی ہے۔

کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی افسر نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ 2017سے2020 تک بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی حد تک کمی آئی تھی جس کی اہم وجہ فوجی آپریشنز اور اندرونی گروہ بندیوں کے سبب بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا کمزور ہونا تھا۔

'طالبان سے دوستی کرنا آسان نہیں ہو گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:07 0:00

ان کے بقول، "افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں سرگرم ریاست مخالف تنظیموں نے خطے کی بدلتی صورتِ حال کے پیشِ نظر اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے یا تو انضمام کی طرف گئیں یا انہوں نے آپس میں اتحاد کر لیا۔"

سیکیورٹی افسر نے بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اپنے دھڑوں کو قریب لانے کے ساتھ لشکرِجھنگوی اورالقاعدہ سے منسلک چھوٹی تنظیموں کو شامل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ وہیں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے فیلڈ کمانڈرز یورپ میں پرتعیش زندگی بسرکرنے والے سربراہوں سےعلیحدہ ہو کر اپنے دھڑے فعال کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لئے 'براس' نامی اتحاد جولائی 2020 میں بلوچ علیحدگی پسند رہنما اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیموں نے تشکیل دیا تھا ۔ بعد ازاں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی نے بھی براس سے اتحاد کیا تھا۔

اسلام آباد کے سیکیورٹی تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز سے وابستہ محقق محمد نفیس نے بھی بلوچستان کی علیحدگی پسند شورش میں اضافی کی بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی صورت حال کو قرار دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG