استنبول کے وسط میں کرد نوجوانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ اسی قسم کی جھڑپیں ترکی کے بہت سے دوسرے علاقوں ، خاص طور سے جنوب مشرق میں ہوئی ہیں جہاں کردوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ گذشتہ اختتام ہفتہ میں ترک فوج نے کرد باغی گروپ، کردستان ورکرز پارٹی یا PKK کے 12 ارکان کو ہلاک کر دیا تھا۔ انتخابی مہم شروع ہونے کے بعد سے ہی، وزیر ِ اعظم رجب طیب اردگان نے PKK اور ملک کی سب سے بڑی کردش پارٹی، BDP کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ہے۔
’’جو لوگ عوام کے جمہوری حق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر تے ہیں، ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ملک میں اب کوئی کردش مسئلہ موجود نہیں ہے۔ میں یہ بات قبول نہیں کر سکتا ۔‘‘
یہ لب و لہجہ 2005 سے بالکل مختلف ہے جب انھوں نے ایک تقریر میں اعلان کیا تھا کہ ملک میں کردش مسئلہ موجود ہے ۔
آخری بار ملک میں 2007 میں انتخابات ہوئے تھے۔ اس وقت مسٹر اردگان نے کردوں کو زیادہ ثقافتی حقوق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ گذشتہ چند برسوںمیں ، حکومت نے کردش ٹیلیویژن اسٹیشن قائم کیا ہے جو 24 گھنٹے کام کرتا ہے، اور PKK کے ساتھ 26 سالہ تنازع ختم کرنے کے لیئے ایک پروگرام ڈویموکریٹک اوپنگ کا آغاز کیا۔ لیکن یہ پروگرام ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی نذر ہو گیا۔
گذشتہ چند برسوں میں، کُرد نواز BDP نے خود کو زیادہ منظم کر لیا ہے اور اسے پوری امید ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں جنوب مشرق میں جہاں کردوں کی اکثریت ہے، AKP کو شکست دے سکتی ہے۔ لیکن BDP پر قانونی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے ۔
گذشتہ مہینے کردوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج ہوئے جب ترکی کے انتخابی کمیشن نے پارلیمانی انتخابات کے بہت سے امیدواروں پر جنہیں BDP کی حمایت حاصل تھی، PKK کے ساتھ مبینہ روابط کی بنا پر انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی ۔ یہ فیصلہ بعد میں واپس لے لیا گیا لیکن احتجاج کے دوران پولیس نے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا۔ ترکی میں قائم انسانی حقوق کی سوسائٹی کے مطابق، گذشتہ پچاس دنوں میں ، پولیس نے 2500 سے زیادہ کرد نسل کے لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس مہینے BDP کی حامی پارلیمینٹ کی رکنیت کی ایک ممتاز امیدوار ایسل تغلق نے حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے کہا’’ہم ایک بڑی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم ایک بار پھر فیصلہ کن لمحے پر پہنچ گئے ہیں۔ جس کسی کو کردش مسئلے کی فکر ہے اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم بڑی تیزی سے گراؤنڈ زیرو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘
اب تک AKP نے BDP کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا دفاع کیا ہے۔ وزیرِ اعظم نے BDP پر الزام لگایا کہ وہ اس حملے میں شامل تھی جو PKK نے انتخابی مہم سے واپس آنے والے کارکنوں کی بس پر کیا تھا ۔ پارلیمنٹ کے لیئے AKP کے امیدوار Volkan Bozkir نے جو یورپی یوینن میں ترکی کی سفیر رہ چکے ہیں کہا’’بات یہ نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی ایسی بات کہی ہے۔ لیکن وہ ایک دہشت گرد تنظیم کا حصہ ہیں۔ وہ ان دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں جو نوجوانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔‘‘
گذشتہ مہینے PKK کے لیڈر عبداللہ Ocalan نے جو جیل میں ہیں، الٹی میٹم دیا کہ اگر عام انتخاب کے بعد تین دن کے اندر کردوں کو زیادہ حقوق دیے جانے کے بارے میں مذاکرات شروع نہ ہوئے، تو لڑائی پھر شروع ہو جائے گی۔
لیکن سیاسیات کے ماہر چنگیز اختر کہتے ہیں کہ کسی قسم کے ڈائیلاگ کی امید بہت کم ہے۔’’حکومت کو یہ بات سمجھنے میں سخت دشواری پیش آ رہی ہے کہ اسے کردوں سے بات کرنی چاہیئے ۔ ان کے خیال میں بُر ے کردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند اچھے کرد بھی ہیں جو سرکاری پارٹی کے رکن ہیں۔ جب پالیسی میں کوئی خلا پیدا ہوتا ہے ، تو دوسرے لوگ اس خلا کو پُر کر دیتےہیں۔ اگر حکومت کردش مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل نہیں کرتی، تو فوج تو ہمیشہ موجود ہو گی۔‘‘
مسٹر اردگان کی حکومت کا ایک اہم جمہوری کارنامہ یہ ہے کہ اس نے سیاست میں ترک فوج کی مداخلت ختم کر دی۔ حکمران AK Party اور یورپی یونین دونوں نے اس کارنامے کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن یہ اہم تبدیلی ایسے وقت میں آئی جب ترکی میں نسبتاً امن قائم تھا۔ مبصرین نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ملک میں بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوئے تو ملک میں ہونے والی ترقی کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔