|
استنبول کا ایک ریڈیو اسٹیشن ملک کے میڈیا ریگولیٹر کی جانب سے اپنا نشریاتی لائسنس منسوخ کئے جانے کے بعد بند ہو گیا ہے ۔
یہ منسوخی اس وقت عمل میں آئی جب یہ علاقائی ریڈیو اسٹیشن آرمینی باشندوں کی مبینہ نسل کشی پر اپنے ایک مہمان کی جانب سے ریمارکس کے بعد معطلی کے ایک حکم نامے کی تعمیل میں ناکام رہا۔
آک ریڈیو (اوپن ریڈیو) نے بدھ کے روز ایک تحریری بیان میں کہا، " اب جب اس کی نشریات کی 30 ویں سالگرہ میں صرف ایک ماہ باقی ہے، یہ خبر ترکیہ میں آزادی اظہار اور میڈیا کے لیے تازہ ترین دھچکا ہے۔"
اسٹیشن کی نشریات کو مئی میں اس وقت معطل کردیا گیا تھا اور ادارے پر جرمانہ کیا گیا تھا جب اس کے ایک مہمان نے 24 اپریل کو تقریر کرتے ہوئے 1915 میں سلطنت عثمانیہ کے تحت آرمینی نسل کے افراد کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ۔
ترکیہ کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نظر رکھنے والے ادارے، RTUK نے اس وقت کہا تھا کہ ریڈیو اسٹیشن نے مہمان کے تبصروں کی تصحیع کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی، جنہوں نےنفرت اور دشمنی کے لیے اشتعال انگیزی کی۔
جون میں،’آک ریڈیو ‘نے کہا کہ وہ نوٹیفیکیشنز بھیجنے والے ایک ریاستی ادارے، نیشنل الیکٹرانک نوٹیفکیشن سسٹم (UETS) میں خرابی کی وجہ سے RTUK کے معطلی کے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
اس نے کہا،"جب مسئلے کی نشاندہی ہو گئی تو، RTUK کو مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک خط بھیجا گیا تھا۔ تاہم، انہوں نے ہماری درخواست کا جواب دیئے بغیر جولائی میں لائسنس منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔"
ایک انتظامی عدالت نے جولائی میں RTUK کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا تھا اور اسے گزشتہ ماہ ختم کر دیا تھا۔ اسٹیشن کا براڈکاسٹ لائسنس 11 اکتوبر کو منسوخ کیا گیا تھا ۔ RTUK نے خصوصی طور پر نہیں بتایا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
’آک ریڈیو‘ کے کو فاؤنڈر اور چیف ایڈیٹر، عمر مدرا نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ، ’’ کسی وجہ کے بغیر، لائسنس کی منسوخی قطعی طور پر عوامی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔‘‘
ترکیہ قبول کرتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں رہنے والے بہت سے آرمینیائی نسل کے باشندے پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کی فورسزکے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔
تاہم ترکیہ اس بارے اعداد و شمار سے اختلاف کرتا ہے اور اس بات سے انکار کرتا ہے کہ آرمینی نسل کے افراد کی ہلاکتیں منظم طریقے سے کی گئی تھیں اور وہ نسل کشی تھی ۔
دنیا بھر میں ہر سال 24 اپریل کو ان ہلاکتوں کی یاد منائی جاتی ہے، جسے بہت سے ملک نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔
آرمینی قتل عام کا تاریخی پس منظر
موجودہ ترکیہ کے مشرق میں اناطولیہ کے علاقے میں کرد مسلمانوں کے ساتھ آرمینی نسل سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ قدیم دور سے اس علاقے میں مختلف آرمینی خاندانوں کی حکومت رہی اور اس دوران انہیں بیرونی مداخلت کا سامنا بھی رہا۔
SEE ALSO: ناگورنو کاراباخ کا طویل تنازعہ: پس منظر اور جائزہانسائیکلوپیڈیا آف بریٹینکا کے مطابق گیارہویں صدی سے اس علاقے میں ترکیہ بولنے والوں کی نقل مکانی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد پندرھویں اور سولہویں صدی میں یہ علاقے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل ہوگئے۔
آرمینی اپنی مشترکہ زبان اور چرچ کی وجہ سے اپنی گروہی شناخت کا بہت گہرا احساس رکھتے ہیں اور سلطنتِ عثمانیہ کے قیام کے بعد بھی انہوں ںے اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھی۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنتِ عثمانیہ کی حدود میں آرمینیوں کی آبادی تقرییاً 25 لاکھ تھی۔ یہ زیادہ مشرقی اناطولیہ کے چھ صوبوں میں آباد تھے۔
اس کے علاوہ انکی ایک بڑی تعداد سلطنتِ عثمانیہ کی مغربی سرحد سے ملحقہ روس کے علاقوں میں بھی آباد تھی۔
انیسویں صدی میں جب سلطنتِ عثمانیہ کے نظامِ حکومت کو ماڈرن اور سیکیولر بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوا تو مختلف نسلی اور مذہبی برادریوں کو حاصل انتظامی و سماجی خود مختاری محدود ہونے لگی۔
آرمینیوں کی زیادہ تر آبادی غریب کسانوں پر مشتمل تھی لیکن ان میں سے بعض تجارت اور مختلف اشیا کی تیاری میں کاریگری کے شعبوں میں کام یاب رہے۔ انہی کامیابیوں کی وجہ سے سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں استنبول میں آرمینی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئیں۔
آرمینی اثر و رسوخ میں اضافہ
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں آرمینیوں نے کئی اہم حکومتی عہدے حاصل کیے جب کہ عثمانی سلطنت میں ان کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔
بریٹینکا کے مطابق آرمینیوں کے نمایاں ہونے سے مسلم آبادی میں ان کے حوالے سے ناپسندیدگی میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ انیسویں صدی میں آرمینیوں کے حوالے سے یہ تاثر شدید ہونے لگا کہ یہ غیر ملکی ہیں اور اپنی آزاد ریاست کے حصول کے لیے عثمانی سلطنت کو کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں۔
عثمانی سلطنت میں ریاست کے بدلتے کردار کے ساتھ آرمینیائی باشندوں کے ترک مسلم حکمرانوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی آنا شروع ہوئی اور اُدھر روسی کاکیشیا میں آرمینیائی نوجوانوں نے آزاد ریاست کے لیے تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔
روس میں 1887 میں اور 1898 میں دو انقلابی تنظیمیں بنیں لیکن ترکی کے آرمینیوں میں انہیں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اور وہ سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ وفادار رہے۔ لیکن انقلابی آرمینیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ترکی میں اس حوالے سے بے چینی بڑھنے لگی۔
سلطنتِ عثمانیہ کے فرماں روا عبدالحمید دوم کے دور میں آرمینیوں کے خلاف انیسویں اور بیسیوں صدی میں تشدد کے بڑے واقعات پیش آئے۔مبینہ طور پر اس کے بعد 1909 میں مختلف شہری علاقوں میں ہونے والے قتل عام میں بھی کم و بیش 20 ہزار آرمینیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
’نوجوانانِ ترک‘
سن 1908 میں کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس (سی پی یو) نے اقتدار حاصل کیا اور عبدالحمید دوم سے آئین کی حکمرانی، انتخابات کے انعقاد اور دیگر اصلاحات کے مطالبات کیے۔
یہ تحریک ’نوجوانانِ ترک‘ (Young Turks)کے نام سے جانی جاتی تھی۔'نوجوانانِ ترک' کی پالیسی میں تیزی سے تبدیلی آنے لگی اور انہوں نے غیر ترک اقوام کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ اختیار کیا جس کے بعد وہ آرمینیوں کی وفاداری کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
اُدھر جنگ بلقا ن میں سلطنتِ عثمانیہ کو شکست ہوئی اور ان کے ہاتھ سے یورپ کا باقی ماندہ علاقہ بھی چلا گیا۔ 'نوجوانان ترک' کے رہنماؤں نے بلقان کے عیسائیوں کو اس جنگ میں شکست کا ذمے دار ٹھہرایا۔ شکست کے بعد سیکڑوں ہزاروں مسلمان پناہ گزینوں کو مشرقی اناطولیہ منتقل کیا جانے لگا جہاں مسلمان اور مسیحی کسانوں کے درمیان زرعی اراضی پر تنازعات جنم لینے لگے۔
سن 1914 میں یورپی قوتوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد 'نوجوانانِ ترک' نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف یورپی قوتوں سے آرمینیوں کی ساز باز کا ان کا شبہ درست تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ نے فرانس، روس اور برطانیہ کے خلاف جرمنی اور محوری قوتوں کا ساتھ دیا۔
مؤرخین اپریل 1915 کو اس قتل عام کی ابتدا قرار دیتے ہیں۔
'نوجوانان ترک' کے مرکزی رہنماؤں اور ’تین پاشاؤں‘ میں شمار ہونے والے طلعت پاشا نے 250 کے قریب آرمینی دانشوروں اور سیاست دانوں کو استنبول میں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ ان میں سے زیادہ تر کو بعد میں قتل کر دیا گیا۔
طلعت پاشا نے 26 مئی کو ’بے دخلی کا قانون‘ منظور کیا جس کے مطابق حکومت کو مشرقی اناطولیہ سے تمام آرمینیوں کو روسی سرحد سے دور کسی نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی ہدایت دی گئی۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان احکامات کے بعد آرمینیوں کا 'قتلِ عام' کیا گیا یا ان کی بڑی تعداد کو شامی صحرا میں منتقل کر دیا گیا جہاں ان کے بچنے کے انتہائی کم امکانات تھے۔ ہزاروں لوگ بھوک، پیاس اور بیماریوں کی وجہ سے اس سفر میں ہلاک ہوئے۔
محتاط اندازوں کے مطابق اس نقل مکانی اور بے دخلی کے دوران چھ سے دس لاکھ کے درمیان آرمینیوں کی جانیں گئیں۔
نقل مکانی کرنے والے آرمینیوں کی بڑی تعداد آج بھی شام اور لبنان میں آباد ہے۔
اس قتل عام پر پوری دنیا اور خاص طور پر مسیحی اکثریت رکھنے والے یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔
پہلی عالمی جنگ میں ترکی کے حریف ممالک روس، برطانیہ اور فرانس نے عثمانی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیا لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیاگیا۔
جن آرمینیوں کو بڑی تعداد میں اناطولیہ سے نکالا گیا تھا وہ عرب ممالک میں پناہ لینے میں کام یاب ہوئے تھے۔ 1917 میں عثمانیوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی قیادت کرنے والے شریفِ مکہ نے مسلمانوں کو آرمینیوں کو تحفظ اور تعاون فراہم کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
یورپی ممالک کی اکثریت آرمینیوں کے قتل عام کو ’نسل کشی‘ سے تعبیر کرتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک اسے نسل کشی کہنے سے گریز کرتے ہیں تاہم بڑے پیمانے پر آرمینیوں کے قتل عام سے انکار نہیں کرتے۔ ترکی اور آذربائیجان اسے نسل کشی تسلیم نہیں کرتے۔
ترکی نسل کشی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ اس کا مؤقف رہا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ جنگ کے دوران روسیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
ترکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے آرمینی باشندوں کی تعداد عام طور پر سمجھی جانے والی تعداد 15 لاکھ سے کہیں کم ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز اور وائس آف امریکہ سے لیا گیا ہے۔