ترکی میں میڈیا ریگولیٹر ادارے نے وائس آف امریکہ سمیت تین بین الاقوامی براڈکاسٹرز کو فوری نوعیت کا نوٹس بھجوایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر براڈکاسٹ لائسنس حاصل کریں وگرنہ ان کو بلاک کر دیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ کے لیے ایزل ساہنکایا کی رپورٹ کے مطابق ریگولیٹر کے اپوزیشن بورڈ کے ایک رکن کے مطابق ریڈیو اینڈ ٹی وی سپریم کونسل کی طرف سے، جسے آر ٹی یو کے ( RTUK) بھی کہا جاتا ہے، جاری کردہ ایک حکمنامہ جرمن براڈکاسٹر ڈوئچےویلے اور یورونیوز کو بھی متاثر کرتا ہے۔
آر ٹی یو کے بورڈ کے ایک رکن الہان تاسچے نے اپنے ٹویٹ میں بتایا ہے کہ اکثریتی ووٹوں سے ہونے والے فیصلے میں وی او اے، ڈی ڈبلیو اور یورونیوز کی ویب سائٹس کو 72 گھنٹے دیے گئے ہیں کہ وہ اس عرصے میں لائسنس حاصل کر لیں۔
تاسچے نے، جنہیں حزب اختلاف کی ری پبلکن پیپلز پارٹی نے اس بورڈ میں تعینات کیا تھا، اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے ترکی کے اندر میڈیا کی آزادی پر ایک اور حملہ قرار دیا ہے۔
ریگولیشن
اس فیصلے کی بنیاد وہ ریگولیشن ہے جو اگست 2019 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس وقت بھی ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حامیوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے ضوابط سے سنسرشپ کا خدشہ ہے کیونکہ سرکاری ریگولیٹری ادارے کو آن لائن نشریاتی مواد پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
اس ریگولیشن سے آر ٹی یو کے کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے کہ وہ میڈیا سروس فراہم کرنے والوں سے کہیں کہ وہ اپنے ریڈیو، ٹی وی اور آن ڈیمانڈ مواد کے آن لائن نشر کرنے کے لیے لائسنس حاصل کریں ۔
’ میڈیا سروس پرووائیڈرز‘ کی جو تعریف کی گئی ہے اس میں آن لائن نیوز کے ساتھ ساتھ نیٹ فلیکس جیسے تفریحی پلیٹ فارم بھی شامل ہیں۔
براڈ کاسٹر لائسنس کی میعاد دس سال ہے اور اس کے حصول کے لیے ایک لاکھ لیرا فیس رکھی گئی ہے جو 7382 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
ریگولیشن آر ٹی یو کے کو یہ اختیار دیتی ہے کہ اگر اس کے قواعد کی تعمیل نہیں کی جاتی تو وہ براڈکاسٹرز پر جرمانے عائد کر سکے یا ان کے لائسنس منسوخ کر دے۔
پریس کی آزادی کے حامیوں اور وائس آف امریکہ کا ردعمل
میڈیا کی آزادی کےمتعدد حامی 'آر ٹی یو کے'پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ریگولیٹر ادارہ غیر جانبداری اور آزادئ اظہار کے معیار پر پورا نہیں اترتا، کیونکہ یہ ادارہ صدر رجب طیب اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتا ہے۔
آر ٹی یو کے کے نائب سربراہ ابراہیم اوسلو نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ فون پر گفتگو میں براڈکاسٹرز کو لائسنس لینے پر زور دیے جانے کی تصدیق کی اور اس بات کی تردید کی کہ اس اقدام کا مقصد سنسرشپ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لائسنس کا حصول تکنیکی تقاضوں کا حصہ ہے۔
وائس آف امریکہ کی ترک سروس کو ایک ای میل کے ذریعے اپنے ردعمل میں وائس آف امریکہ کی ترجمان بریگیٹ سرچک نے کہا کہ ادارہ سمجھتا ہے کہ کسی بھی حکومت کی طرف سے خبر رساں اداروں کو خاموش کرانے کی کوشش میڈیا کی آزادی کی نفی ہے۔
ترجمان کے بقول وائس آف امریکہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ادارے کے ترک زبان بولنے والے سامعین، ناظرین و قارئین کو انٹرنیٹ کے ذریعےاور دیگر تمام موجود طریقوں سے، اس کے پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل رہے۔
ڈوئچے ویلے نے وائس آف امریکہ کی جانب سے درخواست پر اپنا ردعمل نہیں دیا لیکن آر ٹی یو کے کی طرف سے جاری نوٹس کے بارے میں خبر اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے۔
(اس خبر کے لیے وائس آف امریکہ کے حلیمی ہاکالوگلو اور کین کامیلوگلو نے بھی مواد فراہم کیا اور کچھ حصہ رائٹرز سے لیا گیا)