روسی پشت پناہی والی حکومتِ شام کی جانب سے باغیوں کے زیر کنٹرول ادلب کے علاقے میں کی جانے والی کارروائی پر روس اور ترکی کے تعلقات آزمائش میں ہیں۔ باغیوں کی حمایت کرنے والے ملک کے طور پر ترکی اس حملے پر پریشان ہے۔ ترکی نے ’’انسانی بحران کی صورت حال‘‘ کا انتباہ جاری کیا ہے۔
ادلب پر حملے میں شام پیش پیش ہے، جس پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے جمعے کے روز اپنے روسی ہم منصب، صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
ٹیلی فون گفتگو کے بارے میں ترکی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اردوان نے پوٹن کو بتایا کہ ادلب پر حملوں اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بڑا انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے، جو صورت حال ترکی کی قومی سلامتی کے خلاف انتہائی خطرناک ہے‘‘۔
روس نے کہا ہے کہ ’’باہمی کوششوں کو متحرک کرنے سے اتفاق کیا گیا ہے، تاکہ اس خطے کو لاحق دہشت گرد خدشات دور کرنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے‘‘۔
ایسے میں جب روس اور ترکی شام کی خانہ جنگی میں متحارب فریق کی حمایت کرتے ہیں، دونوں ملک تنازع کو ختم کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، جو وسیع تر مفاہمت کا حصہ ہے۔
غالب دلے، آکسفورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے مہمان اسکالر ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’اگر واقعی صورت حال کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے تو تعلقات کے لیے ادلب ایک بڑی آزمائش کا درجہ رکھتا ہے‘‘۔
گذشتہ سال ستمبر میں ترکی اور روس نے ایک سمجھوتا طے کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شامی حکومت کو ادلب میں باغیوں کے خلاف کارروائی سے روکا جائے گا۔ ترکی نے بھی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ دہشت گرد گروہوں سے منسلک باغیوں کو غیر مسلح کیا جائے گا۔
یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ نگرانی کی کاوشوں میں مدد دینے کے لیے ترکی کی فوج کی 12 مبصر چوکیاں قائم کی جائیں گی۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت شام کی افواج نے ایک مبصر چوکی کا گھیراؤ کر رکھا ہے۔